سیکولر ازم کیا ہے؟؟ ایک مطالعہ

آئے دن نئے نئے فکر و فلسفے اور عقیدے و نظرئے منظرِ عام پر آتے رہتے ہیں۔ آج ہم جس موضوع پر بحث کرنا چاہتے ہیں وہ ہے سیکولر ازم۔ سیکولر ازم کا بیج مغرب میں بویا گیا۔ جلد ہی یہ تناور درخت کی شکل میں پوری دنیا میں پھیل رہا ہے۔ غور و فکر سے ہمیں قرآن میں ایسا لفظ ملتا ہےجو کہ لغوی اعتبار سے سیکولرازم کے معنی سے ملتا جلتاہے۔ یہ لفظ "دہر" کا ہے جو منکرین آخرت  کے بارے میں اس ایت "وما یھلکنا الا الدھر" میں مذکور ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ؛ "زمانہ ہمیں پیدا کرکے وہی ہلاک کر دیا ہے۔ اس دنیا کے
رنگ و نور سے پیچھے کوئی غیبی طاقت نہیں"۔ اگر فلاسفہ کے مباحث و مکالمات کا غوروخوض سے مطالعہ کیا جائے تو یہ چیز سامنے آتی ہے کہ وہ دینی مسائل ثابت کرنے کے لئے دو طریقوں سے اپنا موقف پیش کرنے کی کوشش کرتے تھے۔

پہلا طریقہ نقلی دلائل: یعنی قرآن ، احادیث اور اقوالِ سلف۔ 
دوسرا طریقہ عقلی دلائل سے محض اپنی عقل کی بنیاد پر اور اپنی فہم کے بقدر مسائل کا حل تلاش کرتے تھے۔ آج بھی سیکولرازم کی عقل پرستی اس سے قریب ہے۔ دوسرے الفاظ میں عقل آسمانی ہدایات کےتابع نہیں ہے بلکہ اپنی صداقت اور فہم کے مطابق موجودہ مسائل کا حل پیش کرتی ہے۔ سیکولر ازم مین عقل حاکم مطلق کی حیثیت رکھتی ہے جو وہ سمجھتی ہے اس کے مطابق فیصلہ کرتی ہے۔ قطع نظر اس سے کہ ہی فیصلہ کسی دین سے متصادم ہے یا اس کے موافق ہے؟ 
جب کوئی قوم اس نظریہ پر گامزن ہوتی ہے تو وہ کائنات میں رونما ہونے والے تمام معاشرتی اور قدرتی حادثات کی تلاش ظاہری اسباب پر کرنے لگتی ہے۔غیبی قدرت و طاقت سے مدد نہیں لیتیہے۔ دعا نہیں مانگتی ہے اور عمل زندگی میں زہد اور ریاضت کو ایک کونے میں پھینک دیتی ہے کیونکہ مغرب میں سیکولرازم کی چنگاری عیسائیوں کی غلط رہبانیت کے خلاف پھوٹی تھی۔ سیکولرازم کا نظریہ رکھنے والے صرف اس دنیا کو مانتے ہیں اور آخرت کا انکار کرتے ہیں۔ ان کی توجہ صرف اس موجودہ کرہ خاکی پر ہوتی ہے جہاں ہم زندگی گزار رہے ہیں اور موت و اخرت سے بالکل انکاری ہیں۔
آج دو قسم کے سیکولرازم مکتبہ فکر دنیا میں رائج ہیں  : نمبر 1۔ سیاسی سیکولرازم: اس کے تصور میں دین حکومت سے بالکل الگ چیز سمجھا جاتا ہے۔ قانون و آئین میں شریعت کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ حکومت کسی دین کے اصول پر نہیں چلتی دنیا کے مطابق العنا فی حکمران انسان ہیں اور عقل آخری منصف کا کردار ادا کرتی ہے
نمبر 2۔ فلسفی سیکولرازم۔ اس نظریے میں اللہ اور آخرت کا انکار بنیادی عقیدہ ہے۔ ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ سیاسی سیکولرازم کے نظریے میں خالقِ کائنات اور انکار ضروری نہیں ہے بلکہ اپنی سیاست میں خالق کائنات کے احکامات کو جگہ نہیں دیتے ہیں. اس طرح ان میں انکارِ آخرت کو لازمی قرار نہیں دیتے لیکن اس کے لئے تیاری کو بالکل نظر انداز کرتے ہین۔ جب کہ فلسفی سیکولرازم میں عقل حاکم اعلیٰ سمجھی جاتی ہے اور ادیان کو فضول و بے حقیقت چیز باور کرائے جاتاہے۔
سولہویں صدی کے بعد مغرب میں سیکولرازم کا نظریہ تیزی سے پھیلنے لگا جب کہ دنیائے اسلام اور مشرق میں اس کا تصور تک نہیں تھا۔ مغرب میں سیکولر ازم نے کسی پلاننگ اور منصوبہ بندی کے بغری قدرتی طور پر جنم لیا۔ اس کی 2 بڑی وجوہات تھیں۔ پہلی سماوی دین اور جدید علوم  اور سائنس و ٹیکنالوجی میں ٹکراو اور تصادم تھا.باایں طور پر مغرب میں جدید علوم کی ترقی کے نتیجے میں طبیعاتی علوم، سائنس و نجوم و فلکیات کے بارے میں ایسی نئی نئی معلومات دریافت ہوئیں جو بظاہر انجیل کی تعلیمات و احکامات سے متضاد اور متصادم دکھائی دے رہی تھیں اور اس وقت مغرب میں کلیسا کی حکمرانی تھی۔ عیسائی پادریوں کا قول ہر معاملہ میں حرفِ آخر سمجھا جاتا تھا۔ عوام کو توقع تھی کی پادری ان کے شبہات کا جواب دے کر انہیں مطمئن کرینگے لیکن جب عالمی کلیسا نئے انکشافات کو نہ سمجھنے کی بنا پر ان سے ٹکراتا رہا تو رفتہ رفتہ لاشعوری طور پر ترقی یافتہ عوام اور عیسائی دین کے درمیان دراڑیں پڑ گئیں اور عیسائی تعلیمات کی حیثیت معاشرے میں یہاں تک گھٹ گئی کہ جس کلیسا کو ایک زمانہ میں ہر معاملے میں اتھاڑتی حاصل تھی اب سیاست ، معاشرہ اور اقتدار سے یک لخت الگ ہو کر گوشہ گمنامی میں چلا گیا۔ دوسری وجہ عیسائیوں کے آپس میں مذہبی اختلافات تھے جن کی وجہ سے کیتھولک سے پروٹسٹنٹ ایک نظرئے نے جنم لیا۔ اس نئے مذہب نے کلیسا کے خلاف محاذ آرائی کی ۔ پروٹسٹنٹ کا اپنا ایک خاص نظریہ تھا جو کلیسا کے نظرئے سے یکسر متصادم تھا۔ ان دو وجوہات کی بنیاد پر کلیسا کی شام میں احترام معاشرے سے ختم ہوتا چلا گیا۔
مغرب میں جب سیکولر ازم کا نظریہ بنپنے لگا تو اس کے اصولوں میں دین دشمنی نہیں تھی کیونکہ اس معاشرے میں دین مضبوط حریف کی حیثیت نہیں رکھتا تھا۔ تقریباً چالیس(40) سال پہلے بعض معاشرتی امور کے ماہرین کا کہنا تھا کہ عیسائیت کے علاوہ دوسرے آسمانی ادیان بھی کمزور ہوتے جارہے ہیں۔ اس دعویٰ کی بنیاد پر سیکولر ازم کے رہنماوں نے کہا: اپنے معاشرے میں مساجد اور کلیساوں کو رہنے دیں ، ان سے کوئی خطرہ ہمیں محسوس نہیں ہو رہا ہے۔  اس لئے سیکوازم سب ادیان کو ایک ہی آنکھ سے دیکھ رہا تھا اور سیکولرازم کو اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا تھا کہ وہ عیسائی معاشرے میں کام کرے یا مسلم یا پھر یہودی اور مجوسی معاشرے میں سرگرمِ عمل ہوکیونکہ وہ سب ادیان کو بے بس و ناتوان سمجھتا تھا لیکن سیکولرازم کی صلح طلبی ، غیر جانبدانہ اور برداشت کا سلوک دیر تک نہیں چل سکا یہاں تک کہ سیکولر ازم نے اپنے بنیادی روہے کو چھوڑ کر دین دشمنی کا اعلان کر رہا ہے اس کی واضح دلیل فرانس میں اسکولوں اور کالجوں میں اسکارف پہننے پر پابندی لگانا ہے۔ ٹونی بلئیر کا یہ اعلان:"جو شہری ہماری اقدار ، افکار اور نظریات کو نہیں مانتا وہ جلد از جلد برطانیہ سے نکل جائے." اور ترکی مین حجاب کی ممانعت سے سیکولزازم دین دشمنی کا ثبوت مل رہا ہے۔
صلح جوئی کو چھوڑ کر سیکولر ازم نے دین دشمنی کی شکل کیوں اختیار کر لیا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ شروع میں سیکولرازم ادیان کو کمزور  تھا اس لئے اس نے صلح پسندی کا راستہ اپنایا تھا لیکن بیس سال پہلے معاشرتی امور کے ماہرین نے جب یہ اعتراب کیا کہ ادیان میں خاص طور پر اسلام روز بروز مضبوط طاقت ور ہوتا جا رہا ہے تو یہ اعلان سیکولرازم کے لئے ناقابل ہضم تھا۔ اب وہ دین کو اپنے مقابل میں سخت حریف کی حیثیت سے ماننے پر مجبور ہو گیا ۔ لہذا جب اس کی توقع کے خلاف ہوتا ناتواں دین ابھرنے لگا تو صلح جو سیکولرازم دین دشمنی کا منصب سنبھال لیا۔
اس مختصر تاریخ سے ہمیں دو سبق ملتے ہیں : ایک یہ مسلم امہ خاص کر علمائے اکرام کا فرضِ منصبی ہے کہ وہ جدید معلومات میں مہارت حاصل کریں۔ اپنی معلومات عامہ کو ہمیشہ تازہ رکھاکریں اور انہیں کی رو سے صراطِ مستقیم کے لئے سرگرداں عوام کو عصری تطبیق کے مطابق راستہ دکھائیں۔ کرنے کا دوسرابڑا کام یہ ہے کہ ہم مسلمان باہمی اتفاق و اتحاد کا بے مثال مظاہرہ کریں اور اختلافات سے کوسوں دور رہیں۔ عیسائی معاشرے آپس میں عصبیت اور ذاتی اختلافات کے باعث تباہ ہوگئے۔ لہذا آج کے دور میں پورا عالمِ کفر ہر طرف سے اسلام پر یلغار کر رہا ہے۔ اسلام دشمن سیکولرازم اسلامی ممالک میں اپنا اثر و رسوخ قائم کرنا چاہتا ہے تو علما اور قائدین ، مذہبی اور مسلکی اختلافات کے بکھیڑے میں پڑ کر اپنے آپ کو مزید کمزور نہ کریں بلکہ انہیں چاہیئے کہ اپنے اختلافات محدود رکھیں اور باہمی اتحاد و یکجہتی سے تیزی سے پھیلتے ہوئے اسلام دشمن سیکولرازم کی چالوں کو سمجھ کر عوام کو اس کے جال میں پھنسنے سے بچائیں۔ ورنہ مسلم معاشرے میں خصوصاً نوجوانوں میں جس تیزی سے یہ نظریہ فروغ پا رہا ہے، اس کا انجام سوچ کر ہی خوف آتا ہے۔ (بشکریہ: ہفت روزہ ضربِ مومن)
گوگل پلس پر شئیر کریں

Unknown

    بذریعہ جی میل تبصرہ
    بذریعہ فیس بک تبصرہ