مغرب اوراسلام: مستقبل کا نقشہ

    امریکی حکومت اور میڈیا کےمستقلاً ’’دہشت گردی‘‘ کےخلاف جہاد کےنعروں سےیہ تاثر ملتا ہےکہ شاید پوری امریکی قوم اس عمل میں شامل ہےجبکہ حقیقت واقعہ اس سےکچھ مختلف ہے۔ امریکہ کےباشعور دانش ور امریکی جارحیت کےمنفی اثرات کو محسوس کرتےہوئےاپنی حکومت کو سیاسی حکمت عملی پر نظرثانی اور ایک زیادہ حقیقت پسندانہ طرزعمل کی دعوت دےرہےہیں۔یہ آوازیں محدود سہی لیکن مختلف علمی حلقوں سےان کا
    بلند ہونا یہ ثابت کرتا ہےکہ امریکی ابلاغ عامہ کےسحر کےباوجود Stephen M. Walt جیسےافراد،امریکی خارجہ پالیسی پر جن کا پُرمغز مقالہ زیر نظر پرچے میں شامل ہے،امریکہ کی حالیہ ہٹ دھرمی کو قومی مفاد کےمنافی خیال کرتےہیں۔
    لیکن برسراقتدار neo-conservation ٹولہ اپنےخود ساختہ تصورات میں ایسا محصور نظر آتا ہےکہ اسےباہر کی دنیا بلکہ اپنےاردگرد کےردعمل کا بھی شعور نہیں اور افغانستان اور عراق میں اپنی نام نہاد کامیابی پر نازاںو فرحاں اپنی موجودہ روش کو درست سمجھنےپر مُصر نظر آتا ہے۔ تاریخ عالم ایسےواقعات سےبھری پڑی ہیں جن میں فراعنۂ وقت نےاپنی قوت کےنشےمیں کبھی یہ سوچنا پسند نہیں کیا کہ لکڑی کی ہنڈیا جل بھی سکتی ہے۔
    امریکی امور کا ہر طالب علم اس حقیقت سےآگاہ ہےکہ امریکی ملکی سیاست میں خارجہ پالیسی فی الحقیقت امریکہ کی داخلی صورت حال کو بہتر بنانےکا ذریعہ ہوتی ہے۔ چنانچہ دونوںبڑی سیاسی جماعتوں نےہمیشہ اپنےداخلی استحکام اور بالخصوص انتخابات میں کامیابی حاصل کرنےکےلیےاپنی خارجہ پالیسی کو بطور ایک حربےکےاستعمال کیا ہے۔ یہی سبب ہےکہ امریکی خارجہ پالیسی میں اسرائیل کی بہرصورت حمایت داخلی طور پر دونوں پارٹیوں کےلیےمادی اور افرادی حمایت کےسبب تبدیل نہیں ہوتی۔ دونوں بڑی جماعتوں کو مالی امداد اور بعض حلقوںمیں یہودی ووٹ کی ضرورت ہوتی ہےاور اس کی قیمت اسرائیلی نواز خارجہ پالیسی کی شکل میں ادا کر دی جاتی ہے۔

    مسلم ممالک اگرچہ تیل کےذخائر اور دیگر خام اشیاء کی بنا پر اہمیت رکھتےہیں لیکن چونکہ ان کےساتھ تعلقات اور ان کےمسائل کا حل امریکی داخلی سیاست کو بہت زیادہ متاثر کرنےوالا عامل نہیں،اس لیےامریکی خارجہ پالیسی میں ان کی حیثیت ہمیشہ ثانوی ہی رہتی ہے۔
    گیارہ ستمبر ۲۰۰۱ء کو ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی تباہی کےتکلیف دہ واقعہ نےبھی اس صورت حال کو تبدیل نہیں کیا۔ اگرچےاس واقعہ کی ذمہ داری کلی طور پر مسلمانوں پر عائد نہیں ہوتی تاہم ان کی مزاحمتی قوت اور اس سنگین الزام پر مسلم دنیا میں موجود غم و غصےکےپیش نظر امریکہ کی خارجہ پالیسی میں کسی نمایاں تبدیلی کی توقع  بےجا نہ تھی لیکن برسراقتدار طبقہ نےاس واقعہ سےجو نتائج اخذ کیےوہ ایک منفی سیاسی فکر کی غمازی کرتےہیں۔ یہ بات ذہن نشین کر لی گئی کہ مسلمان ’’انتہاپسندی‘‘،’’دہشت گردی‘‘ اور انقلابیت کی بنا پر امریکہ ہی نہیں بلکہ امن عالم کےلیےسب سےبڑا خطرہ ہیں اور اس خطرےکو صرف قوت کےبےدریغ استعمال سےہی دور کیا جا سکتا ہے۔
    اس بات پر غور کرنےکی زحمت ہی نہ کی گئی کہ اگر با الفرض مسلمان امریکہ سےدشمنی رکھتےہیں تو اس کےاسباب کیا ہیں اور کیا ان اسباب کو امریکی ہوائی فوج کےذریعہ ڈیزی کٹر اور کارپٹ بمباری ہی سےدُور کیا جا سکتا ہےیا قوت کےاندھا دھند استعمال کی جگہ کوئی سیاسی حکمت ایسی بھی ہو سکتی ہےجو مسلم دنیا اور امریکہ کےدرمیان بڑھتےفاصلےکم کر سکے۔
    سٹیفن ایم والٹ نےاپنےمقالہ Beyound Bin Laden: Reshaping U.S. Foreign Policy" میں امریکی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کےحوالےسےجو نکات اٹھائےہیں ہمارےخیال میں وہ حقیقت پسندانہ اور امریکہ کےمفاد میں ہیں۔ صدام حسین اور بن لادن امریکہ کےنزدیک دنیا کےخطرناک ترین افرادکیوں نہ ہوں ان کا وجود اور ان کی قوت انتہائی وقتی ہےجبکہ مسلم دنیا ایک ناقابل انکار مستقل وجود رکھتی ہےاور امریکہ اور یورپ کےاپنےمفادات کا تحفظ یہ مطالبہ کرتا ہےکہ مسلم دنیا کےحوالےسےاس کی خارجہ پالیسی میں بنیادی تبدیلیاں کی جائیں۔ ان تبدیلیوںکا تعلق جہاں نظری طور پر امریکی انتظامیہ کےتصور اسلام و مسلمان سےہےوہاں عملی طور پر ان مسائل سےبھی ہےجن میں امریکہ کےکردار نےاسےمسلم دنیا کی نگاہ میں جارح اسرائیل اور صیہونیت کا پشت پناہ بنا دیا ہے۔ فلسطین کےخطےمیں امریکہ کی طرف سےاسرائیل کی مستقل طور پر سیاسی اور عسکری حمایت مسلم دنیا کےلیےناقابل قبول ہے۔ اسی طرح کشمیر کےخطےمیں امریکہ کی عدم توجہی اور زبانی جمع خرچ میں بھی غیر معمولی محتاط رویہ پاکستان کےعوام کو واضح پیغام دیتا ہےکہ وہ پاکستان کا دوست نہیں بلکہ اس کےدشمن کا دوست ہے۔ پاکستان نے’’دہشت گردی‘‘ کےخلاف امریکہ کی نام نہاد جنگ میں جو بنیادی کردار ادا کیا ہےاس کےباوجود امریکہ کا کشمیر پر پاکستان کےموقف کی حمایت نہ کرنا ہر محب وطن پاکستانی کےلیےسخت تکلیف اور غصہ کا باعث ہے۔
    ان دو اہم مسائل کےساتھ ساتھ امریکی خارجہ پالیسی کےمعماروں کو اس بات پر بھی غور کرنا چاہیےکہ امریکہ کی جمہوریت سےوابستگی اور جمہوری نظام کےقیام کےبارےمیں سنجیدگی اور اس کی طرف سےمسلم دنیا میں بادشاہتوںاور فوجی آمروں کی کھلی حمایت مسلم دنیا کےذی شعور افراد کےلیےایک ناقابل فہم معاملہ ہے۔ امریکہ کی اس دوعملی نےاس کےوقار اور اعتماد کو زبردست ٹھیس پہنچائی ہےاور جب تک عملی اقدامات کےذریعےاعتماد کو بحال نہیں کیا جاتا مسلم دنیا اور امریکہ کےدرمیان دوستی کی فضاء پیدا نہیں ہو سکتی۔
    اس گھمبیر سیاسی پس منظر میں مغرب اور اسلام کےدرمیان مکالمہ اسی وقت پُر معنی ہو سکتا ہےجب دونوں جانب سےآج کےمسائل پر اپنےموقف کو عدل و انصاف کی بنیاد پر واضح کیا جائےاور کھوکھلےدعو وں اور سیاسی نعروں کی جگہ ایک قلیل المیعاد اور طویل المیعاد حکمت عملی اس طرح وضع کی جائےجو امریکہ کےوسیع البنیاد مفاد اور مسلم دنیا کےزمینی مسائل سےمناسبت رکھتی ہو۔
    مستقبل کےنقشہ کےحوالےسےتین امکانات نوشتۂ دیوار کی طرح واضح نظر آتےہیں۔ پہلا امکان یہ ہےکہ امریکہ یک قطبی طاقت کےزعم میں یکطرفہ من مانےاقدامات کرتا رہےاور Unilateralism کےنظریہ ساتھ ایک Imperial قوت بن کر نہ صرف مسلم دنیا میں دخل اندازی کرتا رہے،جہاں توانائی کےوسیع ذخائر موجود ہیں اور جن کےبغیر مستقبل کا امریکہ روشن نہیں ہو سکتا،بلکہ یورپ پر بھی اثرانداز ہو اور ترقی پذیر ممالک پر اپنی عسکری قوت کےزور سےعملاً ایک جدید نو آبادیاتی نظام کی صورت پیدا کر دے۔
    امریکہ کی گزشتہ دس سال کی کارکر دگی اور اس کےمشیروں کےبیانات کا کھردرا پن،اس کا اپنےوسائل پر ناز اور ترقی پذیر دنیا کےساتھ تحکمانہ رویہ مستقبل میں اس رویےکےبڑھنےکی غمازی کرتا ہے۔ اس سلسلہ میں یہ بھی امکان نظر آتا ہےکہ دہشت گردی کےزیر عنوان حالات سےفائدہ اٹھاتےہوئےامریکی حکومت امریکہ میں بسنےوالےمسلمانوں کےبڑھتےہوئےسیاسی اثر کو محدود کرنےاور مسلمانوں کی آبادی کےبڑھتےہوئےرجحان کو روکنےکےلیےقانونی اقدامات بھی کرےجیسا کہ جنوری ۲۰۰۴ء میں امریکی صدر نےاپنے’’سٹیٹ آف دی یونین‘‘ خطاب میں اشارہ کیا۔
    اس پالیسی کا وقتی اثر مسلمانوں پر لازماً پڑےگا لیکن اس سےزیادہ اس کا اثر خود امریکی مفادات پر پڑےگا اور نفرت کی وہ دیوار جو امریکی سیاسی پالیسیوں کی حماقت کی بنا پر قائم ہو چکی ہےمزید بلند اور مضبوط ہوتی جائےگی۔ نتیجتاً دونوں کےدرمیان نفسیاتی کھچاؤ میں اضافہ اور آخرکار ٹکراؤ کا امکان یقینی ہو جائےگا جو نہ امریکی مفاد میں ہےنہ مسلم دنیا کےلیےمفید ہے۔
    دوسرا امکان یہ نظر آتا ہےکہ امریکہ قدم بقدم مسلم دنیا اور دیگر ممالک سےاپنےعسکری وجود کو کم کرےاور مسلم دنیا کےمسائل میں حقیقت پسندانہ رویہ اختیار کرتےہوئےمسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیر کو وہاں کےمقامی افراد کی براہ راست شمولیت اور رائےشماری کی بنیاد پر حل کروانےمیں اپنی قوت کا استعمال کرے۔ اگر وہ اپنی پالیسی کو اس رخ پر لےجاتا ہےتو نہ صرف مسلم دنیا کو دوست بنائےگا بلکہ خود یورپ اور ایشیا میں امریکی چودھراہٹ میں کمی اور علاقائی خود انحصاری کےتصور کو تقویت دینےکا باعث بنےگا اور یورپ میں یورپی ممالک آہستہ آہستہ وہ دفاعی کردار خود ادا کر سکیں گےجو اس وقت امریکہ اپنی برتری کےاظہار کےلیےادا کر رہا ہے۔ ادھر ایشیا میں روس اور چین کو یہ موقع ملےگا کہ وہ ان خطوں میں طاقت کےخلاء کو پُر کرنےکےلیےعلاقائی تحفظ میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔ گو اس سےامریکہ کی عالمی چودھراہٹ میں کمی واقع ہو گی لیکن اس کی عالمی ساکھ اور وقار میں غیر معمولی اضافہ ہو گا۔
    تیسرا امکان یہ ہو سکتا ہےکہ امریکہ اپنی جارحانہ اور شہنشاہیت پر مبنی پالیسی میں اضافہ کرتےہوئےنہ صرف افغانستان اور عراق بلکہ یکےبعد دیگرےایران،پاکستان اور لیبیا پر دست اندازی کرےاور اس طرح مستقبل کےلیےتوانائی اور قدرتی وسائل پر قبضہ کےساتھ ان ممالک میں اپنی عددی موجودگی کےذریعےشہنشاہیت کےخواب کو اس کی امکانی حد تک پہنچا دے۔ اس کو پایہ تکمیل تک پہنچانےکےلیےامریکی حکومت کو مسلم دنیا میںبادشاہتوں اور آمریتوں ہی کو وسیلہ بنانا ہو گا یا بعض صورتوںمیں سطحی انداز میں جمہوریت کےقیام کےنام پر اپنی بادشاہت کےلیےراستہ ہموار کرنا ہو گا۔ عراق اس کی تازہ ترین مثال ہے۔ اور پاکستان میں فوجی فرمانرواؤں کی،جمہوریت کےوظیفہ کےباوجود،حمایت کرتےرہنا اس طرز فکر اور پالیسی کی غمازی کرتا ہے۔
    ان امکانات کےحوالےسےہمارا جواب کیا ہو،ہم مغرب اور خصوصاً امریکہ سےکس زبان میں بات کریں،کیا زبان دھمکی،دھرنےاور دھماکہ کی زبان ہو یا اس کےباطل عزائم کو تجزیاتی طور پر سمجھنےکی کوشش کےبعد مغرب کےباشعور اور باضمیر افراد کو ایک مکالمہ کی شکل میں ایک فریق بناتےہوئےعالمی امن اور عالمی توازن کےحوالےسےعالمی اداروں،فکری آستانوں،غیر سرکاری تنظیموں،دنیا کےمذہبی رہنماؤںاور عالمی طور پر تسلیم شدہ اہل علم و فکر و دانش افراد کو جنہیں مختلف میدانوںمیں نوبل پرائز جیسےاعزازات حاصل ہوئےہوں،مخاطب کرتےہوئےایک مضبوط عالمی رائےعامہ (global moral force) کا قیام عمل میں لایا جائےجو ایک عالمی دباؤ بن کر یک قطبی نظام کےخلاف صف آرا ہو جائے۔
    مسلم دنیا اور مغرب کےمکالمہ کی بنیاد علم اور مبنی برعلم مجادلہ ہی ہو سکتا ہےجس کےلیےہمیں علم کےمختلف شعبوںمیں نقطۂ کمال تک پہنچنا ہو گا۔ ایک مادی طاقت کا جواب یا تو ایک ویسی ہی یا برتر مادی طاقت دےسکتی ہےیا وہ علم جس کی بنا پر مادی طاقت وجود میں آتی ہے۔ ہمارےلیےفکری اور علمی محاذ اس بنا پر اور بھی زیادہ اہمیت رکھتا ہےکہ ہم نےایک صدی سےاوپر عرصہ سےاپنےاوپر مغرب کی فکری غلامی اور تقلید کو طاری کیا ہوا ہے۔ جس کا ایک کھلا سبب مغرب کی معاشی اور مادی ترقی ہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیےکہ مغرب کی معاشی ترقی اس کی فکری ترقی کےبعد ہی وجود میںآئی اور پھر اس کی فکری قوت نےمعاشی اور عسکری طاقت کےساتھ مل کر مسلم دنیا کےبہت سےممالک کو اپنےزیرنگیں کر لیا۔ اس عمل کو الٹانےکےلیےمسلم دنیا کو بھی علم ہی کو ذریعہ بنانا ہو گا۔
    ہماری یہ حکمت عملی اس لیےاور بھی ضروری ہےکہ گزشتہ دو سو سال کےعرصہ میںہمارےسواد اعظم نے،خواہ وہ روایتی دینی طبقہ ہو یا ترقی پسند روشن خیال لادینی طبقہ،دینی اور دنیاوی علوم کی تفریق کو جزو ایمان بنا لیا اور جس طرح لادینی ذہن (secular mindset) نےدین کو اپنےدائرہ اثر سےبیک بینی و دوگوش فارغ کر دیا ویسےہی دینی طبقات نےعلم کی ان شاخوںکو جن کا تعلق طبعی اور مادی علوم سےتھا خطرۂ ایمان قرار دےکر اپنےنصابات سےیک قلم خارج کر دیا۔ ہاںمنطق قدیم اور خوارزم شاہی دور کی فلکیات کو ضرور برقرار رکھا،چاہےفلکی برج اور کہکشاںنےاپنی جائےقرار میںکوئی تبدیلی ہی کیوںنہ کر لی ہو۔ اس طرح ستاروںپر کمند ڈالنےکا عمل پتنگ بازی پر آ کر اٹک گیا اور وہ بھی زعفرانی رنگ کےنرم و نازک ریشمی ملبوسات اور ہندوانہ رسوم اختیار کرنےکی شکل میںبےغیرتی کا ایک جیتا جاگتا نمونہ بن گیا!
    ہمارےمکالمہ کی بنیاد وہ موضوعات ہونےچاہییں جو مستقبل کےحوالےسےزیادہ اہمیت رکھتےہیں یعنی توانائی کےوسائل،امن عالم،حقوق انسانی،ماحولیاتی تحفظ،قدرتی وسائل خصوصاً پانی کی منصفانہ تقسیم و استعمال،خواتین کےساتھ عدم تفریق کا رویہ،یک قطبی نظام کےمضر پہلو،عالمگیریت کےاثرات اور کثرتیت (pluralism) کا تحفظ و بقاء۔ لازمی طور پر ان تمام مسائل کا قریبی تعلق معاشی اور سیاسی آزادی کےساتھ ہےاور مسلم دنیا کےدانش ور اور اہل فکر پر یہ فرض عائد ہوتا ہےکہ وہ ان موضوعات پر اپنا موقف اور اس موقف کی بنا پر مغرب کےساتھ اپنےتعلقات کی نوعیت پر اپنی رائےکا اظہار ایسےلہجےاور اسلوب میںکریں جس کےذریعےوہ یورپ و رامریکہ کےقدرےکم متعصب اور کھلےذہن کےافراد کو امریکی برسراقتدار طبقہ کی انسانیت دشمنی بلکہ خود امریکہ کےمفاد کےمنافی حکمت عملی کےخدوخال سمجھا سکیں اور ایک مستقل فکری عمل،تبادلہ خیالات اور مکالمہ کےنتیجہ میںمغرب اور اسلام کےدرمیان فہم و فراست کےپل تعمیر کر سکیں۔  
    اس سلسلےمیں مغربی لادینیت (Western secularism) کا تجزیہ اور اس کےفکری اور تطبیقی پہلو ہماری خاص توجہ چاہتےہیں۔ ہمیں مغربی لادینیت کےخدوخال خود مغرب کےمفکرین سےبراہ راست اخذ کر کےاپنی تنقید اور اسلامی متبادل فکر کو وضاحت سےپیش کرنا ہو گا تاکہ خود مغرب کےذی شعور افراد جس فکری جال میں پھنس گئےہیں وہ معروضی طور پر اسےمحسوس کر سکیں اور ہم اسلامی فکر کی بنیاد پر مستقبل کےمسائل کا عادلانہ حل تجویز کر سکیں۔
    یہ کام کسی ایک فرد کےکرنےکا نہیں بلکہ اس عظیم فکری محاذ پر ہمیں ہر شعبۂ علم سےافراد کو مدعو کرنا ہو گا،ایک اجتماعی فکری محاذ بنانا ہو گا جو اپنی اخلاقی قوت (global moral force) کےسہارےاسلام کی دی ہوئی فکر کو بلا جھجک پیش کر سکے۔

     
    گوگل پلس پر شئیر کریں

    Unknown

      بذریعہ جی میل تبصرہ
      بذریعہ فیس بک تبصرہ