معاشرتی اصلاح : آغاز کہاں سے ہو؟؟

    ”اصلاحِ معاشرہ“ ایک خوبصورت عنوان اور دو لفظوں کی حسین ودلکش تعبیر ہے، اس لفظ کے سننے، بولنے اور پڑھنے والے کے ذہن ودماغ کے دریچوں میں معاشرے کی وہ تمام برائیاں گردش کرنے لگتی ہیں،جنہوں نے مسلم معاشرے کو گندہ اور زہر آلود کردیا ہے، آج یہ لفظ نہ جانے کتنے حلقوں میں باربار پڑھا، لکھا، بولا اور سناجاتا ہے اور باربار اس کا استعمال ہوتا ہے، بے شمار جماعتیں اصلاحِ معاشرہ کے مقصد سے قائم ہیں، ان گنت ادارے وانجمن موجود ہیں، نہ جانے کتنی کانفرنس اور اجلاس کا انعقاد اسی مقصد سے ہوتا ہے، تقریباً ہر
    بڑی تنظیم کے اندر ”اصلاح ِ معاشرہ“ کا مستقل شعبہ قائم ہے، غیر مسلموں نے بھی اس مقصد کے لئے اپنی علیحدہ کمیٹی تشکیل دی، اخبارات ومیڈیا بھی اس مقصد کی تکمیل میں کسی سے پیچھے نہیں، حکومتی سطح پر بھی کوششیں ہوتی رہتی ہیں، لیکن اتنے حلقوں وگروہوں کی ہمہ جہت کوششوں کے باوجود نتیجہ اس کہاوت سے زیادہ نہیں کہ ”یہ تیلی کے بیلوں سے کچھ کم نہیں ہیں، جہاں سے چلے تھے وہیں کے وہیں ہیں“ معاشرہ آج بھی انہیں بگاڑ وفساد کے ساتھ سانس لے رہا ہے:
                         چل چل کے پھٹ چکے ہیں قدم اس کے باوجود
                        اب تک وہیں کھڑا ہوں جہاں   سے  چلاتھا  میں
    غور کرنے کی بات یہ ہے کہ آخر یہ ساری محنتیں بے کار کیوں ہیں؟ ساری کوششیں اکارت کیوں ہوتی ہیں؟ اصلاح معاشرہ کی کوئی تدبیر کامیاب کیوں نہیں ہورہی ہے؟ معاشرہ بجائے اصلاح کے بگاڑ وفساد کی طرف مزید کیوں بڑھ رہا ہے؟۔
    کیا اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے اندر اس وعدہ کا اعلان نہیں فرمایا:وَالَّذِیْنَ جَاہَدُوْا فِیْنَا لَنَہْدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَا کہ جو لوگ ہماری راہ میں کوشش کریں گے ، ہم انہیں اپنے راستوں کی ہدایت کریں گے۔ دوسری جگہ یہ وعدہ مذکورہے: ”اِنْ تَنْصُرُ اللهَ یَنْصُرْکُمْ وَیُثَبِّتْ أَقْدَامَکُمْ“اگر تم اللہ کے دین کی مدد کروگے تو ہم تمہاری مدد کریں گے اور تمہارے قدموں کو استقامت بخش دیں گے“ ۔ظاہر ہے کہ نہ تو خدا کا فرمان غلط ہوسکتا ہے، نہ ہی خدا کا کلام جھوٹ ہوسکتا ہے، نہ رب ذو الجلال سے وعدہ خلافی کا صدور ممکن ہے، لیل ونہار میں تبدیلی ہوسکتی ہے، سورج کا بجائے مشرق کے مغرب سے طلوع ہونا ممکن ہوسکتا ہے، زمین وآسمان کا اپنی جگہ سے ٹلنے کا یقین کیا جاسکتا ہے، مگر رب کریم سے وعدہ خلافی کا صدور ناممکن ہے، خدائے بزرگ وبرتر کے کلام میں شک وریب نہیں کیا جاسکتا، چنانچہ ان ساری کوششوں سے ایک ہی نتیجہ نکل سکتا ہے کہ ”اصلاحِ معاشرہ“ کے نام پر کی جانے والی ساری تدبیروں اور کوششوں کارُخ صحیح نہیں، دراصل یہ کوششیں ان صفات وخوبیوں سے آراستہ نہیں، جو دوسرے کو اپنی طرف متوجہ کرسکیں، جو نصرتِ خداوندی کو دعوت دے سکیں۔ اگر ”اصلاح معاشرہ“ کے سلسلے میں کی جانے والی ہماری کوششیں اور تمام تدبیریں اخلاص وللہیت سے بھر پور ہوں اور صحیح ڈگر پر چلیں تو ضرور اللہ کی مدد شامل حال ہوگی اور نصرتِ خداوندی متوجہ ہوگی، پھر عوام اس سے متاثر ہوں گے اور اس کے صحیح ، بہتر اور خوش کن نتائج ضرور برآمد ہوں گے:
    اگر سینے میں دل ہے اور تڑپ اسلام کی دل میں
    اترسکتا ہے ابرِ رحمتِ پروردگار اب بھی
    اور
    فضائے بدر پیدا کر ! فرشتے تیری نصرت کو
    اترسکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی

    اگر ہم غور وفکر کے دریچے کو کھولیں اور اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں اور تحقیق کے دائرے کو ذرا وسیع کریں تو ہمیں اتنا تو ضرور معلوم ہوجائے گا کہ ”اصلاح معاشرہ“ کے خوب صورت عنوان پر کی جانے والی ساری کوششوں کے در پردہ اتنے اغراض پوشیدہ ہیں اور یہ جد وجہد اتنے عیوب ونقائص سے بھری اور اصلاح کے حقیقی اصول وضوابط اور اصلاح کے لوازمات سے اتنی خالی ہیں کہ صحیح معنی میں اس کو ”اصلاح معاشرہ“ کا نام دینا یا ”اصلاح کی کوشش“ کہنا ہی درست نہیں ہے، مثال کے طور پر اس کی سب سے بڑی خامی اور خرابی یہ ہے کہ ہر جگہ دوسروں کی اصلاح کی فکر ہوتی ہے اور دوسروں سے اصلاح کا آغاز کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، اصلاح کے لئے ہماری ہر تقریر وتحریر، ہماری ہر نصیحت اور ہمارا ہر اجلاس دوسروں کے لئے ہوتا ہے، ہر وقت ہماری یہ خواہش ہوتی ہے کہ معاشرے سے تمام برائیوں کا خاتمہ دوسرے کی ذات اور دوسروں کے گھر سے شروع ہو، معاشرے کے تمام رسوم وبدعات کے خاتمہ کا آغاز دوسرا کرے ارو ہر طرح کی تبدیلی کی ابتداء دوسرا کرے، یہ خیال وگمان شاید ہی کسی شخص کو آتا ہو کہ رسومات کے خاتمے کا مطالبہ خود ہماری ذات سے بھی ہے، برائیوں کے خاتمے میں ہماری بھی کوئی ذمہ داری ہے، زندگی میں تبدیلی لانے کا فریضہ ہمارے اوپر بھی عائد ہوتا ہے اور شاذ ونادر ہی کوئی شخص یہ سوچتا ہو کہ ہمیں خود بھی اپنے اخلاق وکردارکو بے داغ بنانا چاہئے۔ جب تک ہم کو یہ فکر دامن گیر نہیں ہوتی اور ہماری سوچ میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں ہوتی ہے اور خود ہمارے اندر اخلاق وکردار کے بنانے اور سنوارنے کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کا احساس پیدا نہیں ہوتا، اس وقت تک ہمارے معاشرے میں اصلاحِ معاشرہ کا کام آسان نہیں ہوسکتا اور نہ ہمارا معاشرہ اصلاح کی طرف گامزن ہوسکتا اور نہ ہی ہماری زبان وقلم اور وعظ وتقریر کے اندر تاثیر پیدا ہوگی، کیونکہ:
    آدمی صاحبِ کردار اگر ہوتا ہے
    اس کی آواز میں، باتوں میں اثر ہوتا ہے

    اصل وجہ یہی ہے کہ ہماری اصلاح کی ساری کوششیں ناکام ہیں، اصلاح کی تمام محنتوں کا نتیجہ صفر ہے اور ہمہ جہت کوششوں کے باوجود بجائے اصلاح کے ہمارا یہ پاکیزہ معاشرہ فساد کی طرف رواں دواں ہے اور اس کا انجام جو کچھ ہے ہم اور آپ روزانہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ مغربی معاشرے کا پورا عکس ہمارے میں نظر آنے لگا، خدا حفاظت فرمائے۔انبیاء کرام علیہم السلام، صحابہ کرام وتابعین اور اولیاء عظام کا اصلاح کے سلسلے کا طرزِ عمل ہمارے طریقہٴ کار سے بالکل علیحدہ تھا، ان کی ہر اصلاح کا آغاز اپنی ذات سے ہوتا تھا، اپنے اہل وعیال سے ہوتا تھا، اپنے گھراور خاندان کی فکر اُن کو دامن گیر ہوتی تھی، وہاں اعمال وکردار کے ذریعہ دعوت کا کام ہوتا تھا، زبانی وعظ ونصیحت کا دوسرا درجہ تھا۔
    قرآن کریم نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے خصوصی اوصاف میں سے یہ بھی بیان کیا ہے: ”وَکَانَ یَأْمُرُ أَہْلَہ بِالصَّلوٰةِ وَالزَّکَاةِ کہ وہ اپنے اہل وعیال کو نماز اور زکوٰة کا حکم دیتے تھے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت یعقوب علیہ السلام کے سلسلے میں لکھا ہے: ”وَوَصّٰی بِہآ إِبْرَاہِیْمُ ِبَنِیْہِ وَیَعْقُوْبُ یَا بَنِیَّ اِنَّ اللهَ اصْطَفٰی لَکُمُ الدِّیْنَ فَلاَتَمُوْتُنَّ إِلاَّ وَأَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ“ (کہ وصیت کی اس کی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹوں کو اور حضرت یعقوب علیہ السلام نے بھی (اپنے بیٹوں کو) کہ اے بیٹو! بیشک اللہ نے منتخب کیا ہے تمہارے لئے دین کو، لہذا تم مسلمان ہوکر ہی مرنا)۔ اور آگے قرآن کریم نے حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارے میں پھر ذکر کیا ہے:”إِذْ حَضَرَ یَعْقُوْبَ الْمُوْتُ إِذْ قَالَ لِبَنِیْہِ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ بَعْدِیْ“ کہ” جب حضرت یعقوب علیہ السلام کے موت قریب آئی ، جب اپنے بیٹوں سے کہا کہ میرے بعد تم کس کی عبادت کروگے؟۔“ انبیاء علیہم السلام کے اصلاحی فریضہ کی تبلیغ کے سلسلے میں اہل وعیال سے آغاز میں حکمت ومصلحت یہ ہے کہ اصلاح کی جو ہدایت عام مخلوق کو دی جائے اس کو پہلے اپنے اہل وعیال، گھر اور خاندان سے شروع کرے، اپنے گھر کے لوگوں کو اس پر عمل کرنا اور اس کا ماننا اور منوانا نسبتاً آسان بھی ہوتا ہے، اس کی نگرانی اور کمی کوتاہی پر تنبیہ بھی ہر وقت کی جاسکتی ہے اور جب وہ کسی خاص رنگ کو اختیار کرلیں اور پھر اس میں پختہ ہوجائیں تو اس سے ایک دینی ماحول پیدا ہوکر دعوت کو عام کرنے اور دوسروں کی اصلاح کرنے، پھر دوسروں کو اسی ماحول میں ڈھالنے میں بڑی قوت پیدا ہوجائے گی۔ اصلاحِ خلق کے لئے سب سے زیادہ ضروری اور مؤثر ایک صحیح دینی ماحول کا وجود میں لانا ہے۔ تجربہ شاہد ہے کہ صحابہ کرام اور تابعینِ عظام کا دور اس کی روشن مثال ہے کہ ہربھلائی تعلیم وتعلم، افہام وتفہیم اور وعظ وتقریر سے زیادہ ماحول ومعاشرے اور اخلاق وکردار کے سانچے میں ڈھلنے سے پھیلتی اور بڑھتی ہے۔
    انبیاء علیہم السلام کے اس طرزِ عمل سے ایک اصولی بات یہ معلوم ہوتی ہے جو عام انسانوں کے لئے خاص طور پر ہدایت ہے، وہ یہ کہ والدین کا فرض اور اولاد کا حق ہے کہ سب سے پہلے ان کی صلاح وفلاح کی فکر کی جائے، ان کے بعد دوسروں کی توجہ کی جائے، جس کے اندر دو حکمتیں ہیں:
    اول: یہ کہ طبعی اور جسمانی تعلقات کی بناء پر وہ نصیحت کا اثر زیادہ جلد اور آسانی سے قبول کرسکیں اور پھر وہ ان کی تحریک اور اصلاحی کوششوں میں ان کے دست و بازو بن کر اشاعتِ حق میں ان کے معین ہوں گے۔
    دوسرا: یہ کہ اشاعتِ حق کا اس سے زیادہ سہل اور مفید راستہ کوئی نہیں کہ ہر گھر کا ذمہ دار آدمی اپنے اہل وعیال کو حق بات سکھانے اور اس پر عمل کرانے کی سعی میں دل وجان سے لگ جائے کہ اس طرح تبلیغ وتعلیم اور اصلاح وتربیت کا دائرہٴ عمل سمٹ کر صرف گھروں کے ذمہ داروں تک آجاتا ہے اور ان کو سکھانا پوری قوم کو سکھلانے کے ہم معنی ہوجاتا ہے، قرآن کریم نے اسی تنظیمی اصول کے پیش نظر یہ اعلان فرمایا: ”یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا قُوْآ أَنْفُسَکُمْ وَأَہْلِیْکُمْ نَاراً“ (اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو جہنم کی آگ سے بچاؤ اور ارشاد فرمایا : ”وَأْمُرْ أَہْلَکَ بِالصَّلوٰةِ وَاصْطَبِرْ عَلَیْہَا“ (کہ اپنے اہل وعیال کو نماز کا حکم کیجئے اور خود بھی اس کے پابند رہئے) نبی کریم ا جو ساری دنیا کے رسول ہیں اور جن کی ہدایت قیامت تک آنے والی نسلوں کے لئے عام ہے، آپ کو بھی سب سے پہلے اس کا حکم دیا گیا کہ :”وَأَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْأَقْرَبِیْنَ“ (کہ اپنے رشتہ داروں کو اللہ کے عذاب سے ڈرایئے)۔
    حضرت مفتی محمد شفیع نے لکھا ہے کہ :” خاندان کے لوگوں کی تخصیص کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس میں تبلیغ ودعوت کو آسان اور مؤثر بنانے کا ایک خاص طریقہ بتلایاہے،جس کے آثار دور رس ہیں، قریبی رشتہ دار جب کسی اچھی تحریک کے حامی بن جائیں تو ان کی اخوت وامداد پختہ بنیاد پر قائم ہوتی ہے اور خاندانی جمعیت کے اعتبار سے بھی ان کی تائید پر مجبور ہوتے ہیں اور جب قریبی رشتہ داروں، عزیزوں کا ایک ماحول حق وصداقت کی بنیادوں پر تیار ہوگیا تو روز مرہ کی زندگی میں ہرایک کو دین کے احکام پر عمل کرنے میں بہت سہولت ہوجاتی ہے اور پھر ایک مختصرسی طاقت تیار ہوکر دوسروں کو دعوت وتبلیغ کرنے میں مدد دیتی ہے“۔ اس لئے قرآن کریم نے ”قُوْآ أَنْفُسَکُمْ وَأَہْلِیْکُمْ نَاراً“کہہ کر اہل وعیال کو جہنم کی آگ سے بچانے کی ذمہ داری خاندان کے ہر ہر فرد پر ڈالی جو اصلاحِ اعمال واخلاق کا آسان اور سیدھا راستہ ہے اور غور کیا جائے تو کسی انسان کا خود اعمال واخلاقِ صالحہ کا پابند ہونا اور پھر اس پر قائم رہنا اس وقت تک عادةً ممکن نہیں ہوتا ، جب تک معاشرہ وماحول اس کے لئے سازگار نہ ہو۔ سارے گھر میں ایک آدمی نماز کی پوری پابندی کرنا چاہے تو اس پکے نمازی کو بھی اپنے حق کی ادائیگی میں مشکلات حائل ہوں گی۔ آج کل جو حرام چیزوں سے بچنا دشوار ہوگیا ہے، اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ حقیقتاً اس کا چھوڑنا کوئی بڑا مشکل اور دشوار کام ہے، بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ سارا ماحول، ساری برادری اور خاندان جب ایک گناہ میں مبتلا ہے تو اکیلے ایک آدمی کو بچنا دشوار ہوجاتا ہے۔حضور ا پر جب یہ آیت نازل ہوئی تو آپ ا نے اپنے خاندان کے لوگوں کو جمع کرکے دعوتِ حق سنایا، اس وقت اگرچہ لوگوں نے قبول ِ حق سے انکار کیا، مگر رفتہ رفتہ خاندان کے لوگوں میں اسلام داخل ہونا شروع ہوگیا۔
    خاندان واہل وعیال کی تخصیص کی اصل وجہ یہ ہے کہ جب تک کسی شخص کے اہل وعیال اور قریبی رشتہ دار وخاندان کے افراد اس کے نظریات اور عملی پروگرام میں اس کے ساتھی اور ہم رنگ نہیں ہوتے، تو اس کی تعلیم وتبلیغ دوسروں پر اتنی مؤثر نہیں ہوتی، یہی وجہ ہے کہ حضور ا کی دعوت وتبلیغ کے جواب میں ابتداء اسلام میں عام لوگوں کا یہ جواب ہوتا تھا کہ پہلے اپنے خاندان قریش کو تو آپ درست کرلیں، پھر ہماری خبر لیں اور جب خاندان میں اسلام پھیل گیا اور فتح مکہ کے وقت اس کی تکمیل ہوئی تو اس کا نتیجہ قرآن کریم کے الفاظ میں یہ ظاہر ہوا کہ ”یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللهِ أَفْوَاجاً“۔
    اگر ہمارے معاشرے میں اصلاح کا یہی طرز اپنایاجائے، ہمارے واعظین ومقررین، مصلحین وقائدین (چاہے وہ حکومتی سطح کے ہوں یا عوامی سطح کے) جو ہمارے معاشرے اور معاشرے کے افراد کے لئے نمونہ ہیں، وہ اس ڈگر کو اپنا لیں اور ہمارا نوجوان طبقہ جو معاشرے کا اہم عنصر اور معاشرے کی ریڑھ کی ہڈی کہا جاتا ہے، وہ اس میدان میں آگے آئے اور اصلاح کے ہرکام کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ہمہ تن متوجہ ہوجائے اور اپنی ذات سے اصلاح کا آغاز کرنے لگے اور ہر اصلاح کو قبول کرنے لگے، تو جلد ہی ان شاء اللہ ہمارے معاشرے کی کایا پلٹ جائے گی، ہمارا معاشرہ واقعی چین وسکون کا گہوارہ بن جائے گا اور حقیقی اسلامی معاشرہ کہلانے کا مصداق ہوجائے گا اور معاشرے میں صالح انقلاب آئے گا جو قرنِ اول کی یاد تازہ کردے گا۔
    یہ حوصلہ بھی عطا کر مجھے خدائے کریم
    کہ اپنے آپ کو خود آئینہ دکھاؤں میں
    ماخذ: ماہنامہ بینات
    گوگل پلس پر شئیر کریں

    Unknown

      بذریعہ جی میل تبصرہ
      بذریعہ فیس بک تبصرہ