علامہ اقبال اور اجتہاد

    علامہ اقبال اور اجتہاد۔۔۔۔تحریر: چوہدری طالب حسین
    تعبیر شریعت کا اختیار پارلیمنٹ کو کیوں....؟
    "علامہ اقبال کا جواب نہایت واضح اور دو ٹوک ہے. ان کے نزدیک اب وقت آگیا ہے کہ فقہی مسلکوں کے غیر منتخب نمائندوں سے اختیار لے کر اسے قوم کی منتخب اور نمائندہ قانون ساز اسمبلی کے سپرد کر دیا جاۓ. اس کی ایک وجہ یہ ہے کے فرقے دور ملوکیت اور استعمار کی پیداوار ہیں، اور اب جمہوریت کا دور ہے. چوتھے خلیفہ راشد-رض- کے بعد بنو امیہ اور بعد میں عہد بنو عباس میں تعبیر شریعت کا اختیار امت سے فقہی مسلکوں
    اور فرقوں کی طرف منتقل ہو گیا تھا . اب وقت آ گیا ہے کہ تعبیر شریعت کا اختیار فقہی مسلکوں کے افراد سے لیکر قوم کو منتقل کر دیا جاۓ ،جو اس کی اصل اور جائز حقدار ہے.
    وہ اپنے نمائندوں کے ذریعے اس حق کا استعمال کرے . دوسری وجہ یہ ہے کہ متحارب فرقوں کی موجودگی میں
    عہد جدید میں یہی واحد شکل ممکن ہے جو اجماع اختیار کر سکتا ہے اور صرف اس طریقے سے قانون سازی میں عوام کی شرکت کو یقینی بنایا جا سکتا ہے کیونکہ عوام ،ریاست و معاشرے کے معاملات میں گہری بصیرت کے مالک ہوتے ہیں اور ان کی شرکت کے بغیر قانون سازی بے جان اور بے نتیجہ رہتی ہی "
    یہاں میرے خیال میں حضرت علامہ،اس قسم کے اجتہاد کا ذکر ایک مثالی مسلم معاشرے کو مد نظر رکھ کر
    فرماتے ہیں ،لیکن ہمیں جو مسائل پیش آرہے ہیں وہ ہمارے اپنے ہی پیدا کردہ ہیں. یعنی دھونس ، دھاندلی،جبر ،ظلم ، برادری ازم، نااہل پیروں کی تقلید، غلامی، بیرونی و اندرونی دباؤ اور جعلی اسناد کے بل بوتے جو نمایندگان پارلیمنٹ میں آتے ہیں وہ اس قسم کی علمی اور عملی استعداد نہیں رکھتے کہ شریعت کیا تعبیر نو کریں.
    حضرت علامہ مختلف مسلکوں سے تعلق رکھنے والے حضرات کو اجتہاد کا حق اس لیے نہیں دیتے کہ. وہ اپنے فرقے کے لیے اپنی فقہ کی تعبیر تو کر سکتے ہیں مگر پوری قوم کے لیے شریعت کی تعبیر نہیں کر سکتے. دوسرا سبب یہ ہے کہ اسلام میں اختیار تعبیر شریعت پوری قوم کا حق ہے. خدا نے یہ اختیار کسی فرد یا فرقے کو تفویض نہیں کیا بلکہ اس کا اختیار پوری قوم کو دیا ہے. عہد رسالت میں آنحضرت (ص) ریاستی امور ،حکومتی معاملات اور معاشرتی و معاشی اداروں کی تشکیل میں عوام کی رائے معلوم فرماتے تھے. "وشاورھم فی الامر" قرآن ١٥٩:٣(امور حکومت میں آپ ان سے مشورہ لیں ) کا یہی مفھوم ہے.
    اجتہاد کا دروازہ بند ہونا محض افسانہ ہے.
    علامہ اقبال مسلسل اجتہاد کے قائل ہیں .وہ قاضی شوکانی کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ اجتہاد آنحضرت(ص) کی حیات طیبہ میں بھی ہوتا رہا ہے. اس سے تو یہ امر قطعی طور پر ثابت ہوتا ہے کہ اجتہاد کسی دور میں بند نہیں ہو سکتا .اس لیے اجتہاد کا دروازہ بند ہونے کا نظریہ محض افسانہ ہے.
    انفرادی اور اجتماعی طور پر پیش آمدہ مسائل کے حل کے لیے اجتہاد کا عمل جاری رکھنا بہت اہم ہے . اسلام قیامت تک رہنے کیلیے ہے اور نت ننے مسائل کا سامنےنہ آنا ناگزیر ہے ،نصوص محدود ہیں اور مسائل بہت زیادہ - ماہرین شریعت انکے حل کے لیے بہت کچھ لکھ چکے ہیں اور لکھ رہے ہیں ،جنہیں ہم نظائر کے طور استعما ل کر سکتے ہیں تاکہ قرآن و سنت سے استنباط کرتے وقت روشنی مل سکے.
    (اقبال اور اجتہاد-از ڈاکٹرمحمد یوسف گورایہ -فیروز سنز لاہور- ص-١٩-٢١)
    اب اجتہاد کے زیادہ مواقع موجود ہیں. 

    علامہ اقبال نے تیسرے مفروضے کے جواب میں لکھا کھ یہ دعویٰ بالکل بے بنیاداور انتہائی نامعقول ہے کہ پہلے مجتہدین کو اجتہاد کی زیادہ سہولتیں تھیں موجودہ مجتھدین کو زیادہ مشکلات در پیش ہیں. انہوں نے اس افسانے کو بیہودہ قرار دیا اور واضح کیا کہ دراصل موجودہ مجتہدین کو پہلوں کی نسبت زیادہ سہولتیں میسر ہیں. اس پر سرخسی کے حوالے سے علامہ اقبال نے یہ راۓ دی ہے .
    "اس افسانے کے حامی اگر یہ سمجھتے ہیں کہ متاخرین فقہاء کے راستے میں زیادہ مشکلات ہیں تو یہ انتہائی بیہودہ بات ہے. کیونکہ اسے سمجھنے کے لیے زیادہ عقل درکار نہیں کہ متاخرین فقہا کے لیے متقدمین فقہا کی نسبت اجتہاد کرنا زیادہ آسان ہے. در حقیقت قرآن کی تفاسیر اور سنت کی شروح کا ذخیرہ اس کثرت سے مدون اور عام ہو چکا ہے کہ آج کے مجتہد کے پاس تعبیر شریعت کے لیے اس کی ضرورت سے بھی زیادہ مواد موجود ہے."
    اس طرح متقدمین کی اجتہاد کے لیے بتائی گئی شرائط میں بہت حد تک نرمی کی جا سکتی ہے. لیکن اب زیادہ تر اجتماعی اجتہاد کے لیے زور دیا جا رہا ہے اور اس پر کام بھی ہو رہا ہے ، لیکن ابھی تک ان اجتماعی اجتہادات میں کیے گنے فیصلے امت مسلمہ کے مسائل حل کرنے میں ناکافی ہیں، جس کی سب سے بڑی وجہ روایتی علماء کی کثرت میں نمائندگی بتائی جاتی ہے کیونکہ یہ علماء کرام جدید علوم سے سطحی علم بھی نہیں رکھتے .آج کے اجتہاد کےلیے دوسرے علوم بہت ضروری ہیں .جدید علوم کے ماہرین اور روایتی علماء کے درمیان موثر ربط ہونا ضروری ہے.
    علامہ اس میں اضافہ کرتے ہیں کہ" عہد حاضر کے مسلمان کبھی یہ گوارہ نہیں کریں گے کہ وہ اپنی ذہنی آزادی سے خود بخود دستبردار ہو جائیں "
    علامہ نے وسیع النظر اور وسیع الفکر مسلمانوں کی نئی نسل کے اس اختیار کا مکمل جواز پیش کیا جس میں اس نے شریعت کی از سر نو تعبیر کا دعوی کیا ہے وہ لکھتے ہیں ،
    "عہد حاضر کے وسیع النظر مسلمان اگر دعوی کرتے ہیں کہ ننے تجربات کی روشنی اور زندگی کے بدلے ہویے تقاضوں کے پیش نظر انہیں شریعت کے بنیادی قانونی اصولوں کی از سر نو تعبیر کا حق حاصل ہے تو میری رائے میں انکا دعویٰ کلی طور پر جائز ہے"(اقبال اور اجتہاد -از ڈاکٹر محمد یوسف گورایہ اور The Reconstruction of Religious Thought in Islam -by-Allma Aqbal سے ماخوذ.
    اجتہادات اور قانون سازی میں....علماء کی نامزد کونسل.
    علامہ ہر حالت میں قانون ساز اسمبلی کی بالا دستی کے قائل ہیں. وہ علماء کی کسی نامزد کونسل کو اسمبلی کی نگرانی پر برداشت نہیں کرتے . انہوں نے ١٩٠٦ کے ایرانی دستور میں علماء کی نگران کونسل کی شق پر سخت تنقید کے بعد اسے خطرناک انتقام Dangerous arrangement قرار دیا. ان کی رائے میں علماء بھی اسمبلی کا حصہ بنیں اس کی آزادنہ قانونی بحثوں میں مدد اور رہنمائی کی خدمات انجام دیں. مگر وہ علماء کو نامزدگی کے ذریعے اسمبلی کی نگرانی پر مسلط کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دیتے .(اقبال اور اجتہاد--از ڈاکٹر محمد یوسف گورایہ --The Reconstruction of Religious thought in Islam-by Dr.Muhammad Aqbal)
    کیا اسمبلی گزشتہ تعبیر شریعت کی پابند ہے .
    علامہ فرماتے ہیں کہ"تاریخ کا فیصلہ ہے ،جن فرسودہ نظریات کو خود کسی قوم نے ایک دفعہ فرسودہ قرار دے دیا ہو، وہ اس قوم میں دوبارہ کبھی قوت حاصل نہیں کر سکتے" اس طرح ان کا احیاء تاریخ کے فیصلے کے خلاف ہے . جدید افکار اور تجربات کی روشنی میں آزادی اجتہاد کو برونے کار لا کر قانون شریعت کی از سر نو تشکیل کی ضرورت ہے. حضرت علامہ کا اجتہاد یہ ہے کہ گزشتہ زمانوں میں کی ہوئی شریعت کی تعبیر اور فقہا کے اجتہادات کی موجودہ اسمبلی پابند نہیں ہے . کیونکہ گزشتہ دور کی فقہ کے خود بانیوں کو اپنے اجتہادات اور تعبیرات کے حرف آخر ہونے کا دعوی نہ تھا. علامہ مزید لکھتے ہیں "فقہی مذاہب اپنی جامعیت کے باوجود،بہرحال انفرادی تعبیرات ہیں اور حرف آخر ہونے کا دعو ی نہیں کر سکتے .مجھے معلوم ہے کہ علماء فقہی مذاہب کے حرف آخر ہونے کے دعویدار ہیں . اگرچہ ان سے کبھی ممکن نہیں ہوا کہ وہ اجتہاد مطلق کا انکار کار سکیں"
    آپ اس میں اضافہ کرتے ہیں " اب کوئی چارہ کار ہے تو یہ کہ ہم اس چھلکے کو اتار پھینکیں جو سختی کے ساتھ اسلام پر جم گیا ہے. جس نے مکمل طور پر متحرک نظریہ حیات کو بالکل جامد بنا کر رکھ دیا ہے" اس طرح علامہ اقبال کا نظریہ ہے کہ جو چیز فرسودہ ہو کر بے جان ہو چکی ہو،موجودہ اسمبلی اس کی پابند نہیں اور نہ ہی اس کے ساتھ جھوٹی عقیدت کا اظہار اور مصنوعی ذرائع سے اس کا احیاء زوال پزیر قوم کا علاج ہے . وہ اور لکھتے ہیں،"قوم کے زوال و انحطاط کو روکنے کا یہ علاج نہیں کہ گزشتہ تاریخ سے جھوٹی عقیدت کا اظہار کیا جاۓ اور اس کے احیاء کے لیے خود ساختہ اور مصنوعی ذرائع اختیار کیے جائیں "
    اس طرح علامہ مجلس قانون ساز کو کلی طور پر آزاد اور خود مختار سمجتھے ہیں،وہ اس کے مکمل اختیار تعبیر شریعت کے قائل ہیں .وہ فقہی مسالک سے قومی اسمبلی کو بالاتر قرار دیتے ہیں اور اسمبلی پر کسی بھی فقہی مسلک کی بالادستی کو برداشت نہیں کرتے.
    حضرت علامہ کسی معین فقہی مذہب کو شریعت کی تعبیرات اور اجتہادات کی اس طرح اجازت نہیں دیتے کہ انہیں پوری امت اور بنی نو ع انسان پر لاگو کیا جائے . اس ضمن میں آپ لکھتے ہیں کہ
    "عہد حاضر کے حنفی فقہاء نے اپنے مذہب کی روح کے خلاف ،امام ابو حنیفہ-رح-یا ان کے شاگردوں کی تعبیرات کو دوامی حیثیت دے رکھی ہے. جس طرح شروع شروع میں امام ابو حنیفہ کے ناقدین نے ان فیصلوں کو دائمی حیثیت دی تھی جو مخصوص معاملات پر دینے گنے تھے"
    امام ابن حزم-رح- اور امام ابن تیمیہ-رح- نے فقہ کے حرف آخر ہونے کے خلاف زبردست رد عمل کا اظہار کیا تھا. علامہ لکھتے ہیں" اپنے لیے اجتہاد کا دعویٰ کرتے ہونے امام ابن تیمیہ -رح- فقہی مذاہب کے حرف آخر ہونے کے خلاف بغاوت میں آٹھ کھڑے ہوئے اور شریعت کی از سر نو تعبیر کرنے کے لیے انہوں نے اولین اصولوں کی طرف رجوع کیا"
    حضرت علامہ لکھتے ہیں کہ اجتہاد کا دروازہ بند ہونے کی کہانی قابل قبول نہیں ہے ، اس افسانے کا ایک اور سبب یہ ہے کہ ذہنی تساہل اور روحانی انحطاط کی وجہ سے بڑے مجتہدین کو بت بنا لیا گیا. آپ اس طرح لکھتے ہیں
    " اور یہ بھی کہ ذہنی تساہل کی وجہ سے، بالخصوص روحانی انحطاط کے زمانے میں، آئمہ مجتہدین کو بت بنا لیا جاتا ہے ".
    لیکن حضرت علامہ کے ان نظریات کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آئمہ مجتہدین نے جو ہمارے لیے انمول کام کیا ہے وہ اب کارآمد نہیں ہے. اس عظیم فقہی ادب کو نظائر(precedents) کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے اور کیا جا رہا ہے اور ان سے روشی اور رہنمائی لی جاتی ہے اور مآخذ اصلیہ یعنی قرآن و سنت سے استنباط احکام کیا جاتا ہے . پاکستان میں وفاقی شرعی عدالت کا قریب قریب یہی طریقہ کار، منہاج و اسلوب ہے.

    بذریعہ ای میل بلاگ پوسٹ


    گوگل پلس پر شئیر کریں

    Unknown

      بذریعہ جی میل تبصرہ
      بذریعہ فیس بک تبصرہ

    0 تبصروں کی تعداد:

    Post a Comment