نامور فرانسیسی مفکر ہنری برگساں کا فلسفہ تصوف

    نامور فرانسیسی مفکر ہنری برگساں  کا فلسفہ تصوف۔۔۔۔تحریر  چوہدری طالب حسین
    تصوف ------- "برگساں کا فلسفہ " چھوٹی سی کتاب میں ڈاکٹر نعیم احمد نے نامور فرانسیسی مفکر ہنری برگساں کے فکر و فلسفہ کے بارے میں بعض اہم اور بنیادی نوعیت کے مباحث پیش کیے ہیں ، ان سے استفادہ کرتے ہوئے ہم برگساں (اور عارف رومی ؒ کے چند اشعار ) کے حوالے سے تصوف کے موضوع پر یہاں مختصر سی
    گفتگو کرتے ہیں.
    ہنری برگساں

    برگساں کی کتاب" تخلیقی ارتقاء" میں اگرچہ ہمیں کوئی مذہبی نظریہ نہیں ملتا تاہم دوران مطالعہ ہمیں جابجا ایک گہرے متصوفانہ رجحان کی کارفرمائی نظر آتی ہے...ایک دوسری کتاب The Two Sources of Morality and Religion میں برگساں نے ایک واضح تصور الہ پیش کیا اور اسے"محبت" قرار دیا اور ارتقاء کے تصور میں بھی تھوڑی سی ترمیم کی. پہلے وہ کسی مقصد یا نصب العین کا قائل نہ تھا کیونکہ اس طرح جبریت لازم آتی تھی. اب اس نے ارتقائی عمل کو بامقصد قرار دیا. خدا "محبت" ہے اور اپنے علاوہ ایسے"خالقین" تخلیق کر رہا ہے جو کہ اس کی محبت اور لطف و کریم کے اہل بن سکیں . انسان جب اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کرتا ہے تو وہ خالق کل کی تخلیقی فعلیت(میں بحثیت انسان شامل) ہو جاتا ہے . عقل کبھی بھی کائنات کی کنہ اور تخلیقی مقصدیت کو سمجھ نہیں سکتی...
    اس کے لیے وجدان کی ضرورت پڑتی ہے جو کہ دراصل صوفیانہ تجربہ ہے برگساں کا خیال ہے کہ ہر آدمی اساس حیات کو نہیں سمجھ سکتا. دنیا میں چیدہ چیدہ افراد ہی ایسے ہیں جنہیں حیاتی لہر کا من حیث الکل عرفان بخشا گیا ہے. البتہ حقیقت کا جزوی وجدان ایسے متعدد افراد کو حاصل ہو جاتا ہے جنہیں عام اصطلاح میں صوفیا کہا جاتا ہے. برگساں صوفیانہ واردات کو وحدت الوجودی فعل قرار نہیں دیتا بلکہ کہتا ہے کہ ایک صوفی ایسی فعلیت کو کسی حد تک آگے بڑھانے کا اہل بن جاتا ہے جو کہ دراصل خدا کا عظیم الشان عمل تخلیق ہے. اس کے برعکس کہ، صوفی ذات احد میں ایسے گم ہو جاتا ہے جیسے سمندر میں قطرہ ، اس طرح صوفی اپنی ذات کی نفی کے ساتھ ہی اپنی تمام تخلیقی صلاحیتوں سے بھی دستبردار ہو جاتا ہے.برگساں ایسے تصوف کا قائل نہیں ،اور کہتا ہے کہ صوفیانہ واردات میں نہ تو صوفی کی ذات کی نفی ہوتی ہے اور نہ ہو وہ اس کی تخلیقی صلاحیتیں ختم ہوتی ہیں بلکہ اس واردات میں وہ اسی تخلیقی فعلیت میں فعال و سرگرم ہو جاتا ہے جس میں خود خدا مصروف ہے. اسی طرح صوفی خدا کی اس محبت کا تجربہ کرتا ہے جو کہ وہ اپنے بندوں اور اپنی مخلوقات کے لیے رکھتا ہے. اس نقطہ نظر سے صوفیانہ واردات صوفیاء کی ذاتی اور نجی کیفیت نہیں رہتی بلکہ یہ ایک سماجی اور عمومی حیثیت اختیار کر جاتی ہے. برگساں کے خیال میں صوفیاء کو انسانیت کی تکمیل و معراج کے لیے جدو جہد کرنا چاہے .

    برگساں دو قسم کے معاشروں کا ذکر کرتا ہے . ایک تنگ نظر Closed Society اور دوسرے آزاد معاشرہ Open Society! تنگ نظر معاشرے ایسے مذاہب کے پیدا کردہ ہوتے ہیں جو کہ لگے بندھے ضابطوں،رسوم و رواج اور میکانکی عبادت پر مشتمل ہوں . ایسے معاشرے نہ تو افکار تازہ کو پسند کرتے ہیں اور نہ ہی اپنے نظام زندگی میں کسی قسم کی تبدیلی کو برداشت کرتے ہیں . ان میں ہٹ دھرمی ،تعصب اور راسخ الاعتقادگی اس حد تک جڑیں پکڑ چکی ہوتی ہے کہ شجر تخلیق کی نشو و نما ہی نا ممکن ہو جاتی ہے. ایسے معاشرے اپنی بقا کے لیے اور اپنی عصبیت کا ڈھانچہ قائم رکھنے کے لیے دوسرے تنگ نظر معاشروں سے بر سرپیکار رہتے ہیں . چنانچہ جنگیں اور بدامنی ایسے معاشروں کا مابہ الامتیاز ہے....اس نہ صرف ایسے تنگ نظر معاشروں پر سخت تنقید کی جو مذہبی اور اخلاقی راسخ العقیدگی کی پیداوار ہیں،بلکہ ایسے معاشروں کو بھی اس نے تنگ نظر قرار دیا جو سائنسی ترقی کی وجہ سے میکانکی اور مشینی بی حسی کا شکار ہو چکے ہیں.
    اس کے برعکس ایک آزاد معاشرہ وہ ہے جہاں مذہبی و اخلاقی جبر اور میکانکی تکرار کم سے کم ہو. برگساں امید کرتا ہے کہ آنے والے وقت میں ایسا معاشرہ وجود میں آئے گا اور یہ محدود ہونے کی بجاۓ پوری انسانیت کو اپنی آغوش میں سمیٹ لینے کی اہلیت رکھتا ہو گا.
    اس میں ایسا مذہب اور ایسی اخلاقیات فروغ پائیں گی جس میں لچک ہو گی اور جو ارتقائی عمل کے تقاضوں کے ساتھ ساتھ اپنے اندر مناسب تبدیلیاں پیدا کر سکیں گے. ایسے معاشرے کی روح رواں ایک ایسی صوفیانہ بصیرت ہو گی جس سے محبت اور تخلیق کے سوتے پھوٹیں گے. ایسا آزاد معاشرہ حیاتی لہر کی ارتقائی سعی و جہد اور محبت و خلاقیت کا صحیح غماز ہو گا.

    ارشاد باری تعالیٰ ہے --لا اکراہ فی الدین(٢/٢٥٦ البقرہ )دین اسلام میں (کوئی جبر و) زبردستی نہیں.اسلام کے بنیادی اصولوں میں کوئی زبردستی نہیں ہے ...کسی کے مذہب کو برا بھلا کہنے کی اجازت نہیں ہے بلکہ یہاں تک حکم ہے کی کسی کے بت کو بھی برا نہ کہو تاکہ وہ تمہارے سچے خدا کے بارے میں اپنی ذاتی مخالفانہ رائے نہ دے اور بات کشیدگی تک پہنچے -اسلام میں دعوت و تبلیغ کے ضابطے بتائے گئے ہیں جو مقاصد شریعت اور انسانوں کے مصالح کا اعتبار کرتے ہیں نا کہ ذاتی مفادات اور عصبیت . تخلیق کےبیان میں (کن فیکوں کے ساتھ )اس ارشاد باری تعالیٰ کا حوالہ دیا جاتا ہے "کل یوم ھوفی شان"-الرحمٰن -٢٩ --وہ ہر آن نئی شان میں ہوتا ہے-یعنی اللہ تعالیٰ ہر آن نئی تخلیق کرتا رہتا ہے، جسے علامہ تخلیق نو کہتے ہیں نا کہ تخلیق مکرر- انسان کے پاس خدا ہی کے دیے ہوئے اختیارات ہیں.
    آئیے یہ بھی دیکھیں کہ عارف رومی ؒ اپنے اشعار میں کس طرح کا اظہار کرتے ہیں،جنہیں مولنا بحرالعلوم اور مولانا قاضی سجاد حسین نے "تجدد امثال" کے زمرہ میں لکھا ہے .
    پس ترا ہر لحظہ مرگ ورجعتے ست---مصطفیٰ فرمود دنیا ساعتے ست

    ہر لحظہ تیری موت اور واپسی ہے. اسی لیے آنحضور (ص) نے فرمایا ہے کی دنیا ایک ساعت ہے.

    ہر نفس نو مے شود دنیا و ما ---بے خبر از نو شدن اندربقا
    عمر ہمچو جوئےنو نومی رسد ---مستمرے می نماید در جسد
    شاخ آتش را بہ جنبانی بساز --در نظر آتش نماید بس دراز

    ہر سانس میں دنیا نئی بن رہی ہے ہم اس کے ننے بننے سے بےخبر ہیں ---زندگی نہر کے پانی کی طرح نئی نئی آتی رہتی ہے. بدن میں مسلسل نظر آتی ہے. جلتی لکڑی کو تیزی سے گھماؤ- تو دیکھنے میں لمبی آگ نظر آے گی .

    بذریعہ ای میل بلاگ پوسٹ

    گوگل پلس پر شئیر کریں

    islamlover

      بذریعہ جی میل تبصرہ
      بذریعہ فیس بک تبصرہ

    0 تبصروں کی تعداد:

    Post a Comment