اعتماد اور بداعتمادی

    اعتماد اور بداعتمادی۔۔۔۔۔۔۔۔ تحریر: عباس ملک
    کیا ہمارے درمیان اعتماد کی کمی یا اس کا فقدان ہے ۔ ایک صائب دوست کہتے ہیں کہ عوام کا اداروں پر اعتماد ختم ہونے کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں بیشمار مسائل عود کر آئے ہیں۔اس اعتماد میں کمی مشرف کے دور سے شروع ہوئی ۔اس کے بعد انہوں نے کافی طویل گفتگو اس تناظر میں ارشاد فرمائی ۔ انہوں نے میڈیا کو اس کیلئے ذمہ دار قرار دیا جو سنی سنائی باتوں کو بغیر کسی تحقیق کے خبر کے طور پر پیش کرتا ہے ۔یہ علیحدہ بات ہے کہ خبر کی تعریف کی رو سے اس کا سچ یا جھوٹ ہونا ضروری نہیں لیکن اخبار نویس کیلئے ضروری ہے کہ وہ
    اس کی صحت کے بارے میں تحقیق ضرور کرے ۔اخبارات کی حد تک تو یہ بات کافی حد تک کہی جا سکتی ہے کہ اس میں بغیر تصدیق کے کوئی خبر کم ہی شائع کی جاتی ہے ۔البتہ ٹی وی کے لائیو پروگرامز کے بارے میں کچھ کہنا بعد از قیاس ہے کہ وہ اپنے پروگرامز کے بارے میں صحافت کے مطلوبہ معیار کا کس حد تک خیال رکھتے ہیں ۔ چونکہ ٹی وی پروڈیوسر صحافی نہیں ہوتا لیکن ایک پروفیشنل ہونے کے ناطے وہ ضرور ان حدود سے واقف ہو تا ہوگا جو ایک ذمہ دار پروفیشنل کیلئے ضروری ہیں۔قاری اخبار پر اعتماد کرتا ہے کہ وہ اسے درست معلومات فراہم کرے گا اور اس کی مطلوبہ معلومات اسے اخبار میں دستیاب ہو جائیں گی۔یہ ایک اعتماد ہے جو اس ادارے پر عوام کرتے ہیں لیکن اس وقت یہ اعتماد بھی ڈانوں ڈول ہو چکا ہے ۔ اس میں کس کا قصور ہے کیا اس میں عوام کا قصور ہے یا حکومت کا یا پھر ادارے کا قصور ہے ۔آخر یہ کیوں نہیں خیال کیا جاتا کہ اس اعتماد کو مجروح کرنے والے کو اس کی سزا کیوں نہیں دی گئی۔ جس کی وجہ سے اس اعتماد کو مجروح کرنے والوں کی تعداد اتنی ہو گئی کہ اب عوام کسی پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں۔ عوام نے سب پر اعتماد کیا اور اندھا اعتماد کیا ، پھر اس اعتماد کو کس طرح مجروح کیا گیا ۔ اس طرح عوام کے اعتماد کو مجروح کیا گیا کہ اس کی کرچیوں سے ہی عوام چھلنی ہو رہے ہیں۔عوام سے یہ تقاضا کیا جا رہا ہے کہ وہ اب اس اعتماد کو واپس اداروں اور ان کے ارباب اختیار کو واپس کریں ۔ تاکہ وہ عوام کے نام پر ایک بار پھر سے یہ کھیل کھیل سکیں ۔ڈکٹیٹر کیوں آتے ہیں اس کی وجہ کیا عوام کا اعتماد ہے یا پھر عوام کے اعتماد کو مجروح ہوتا دیکھ کر وہ اس بہانے سے آتے ہیں۔ملک میں جمہوریت کے ترویج اور ترقی کیلئے عوام سے قربانی کا تقاضا کیا جاتا ہے ۔ کیا عوام نے کم قربانی دی ہے جو اس سے اور قربانی کا تقاضا کیا جاتا ہے ۔ اکابرین نے کون سی قربانیاں دی ہیں جو وہ خود کو قربانی کے اس عمل سے مبرا قرار دیتے ہیں۔اگر انہیں قید ،جیل یا جلا وطنی کا سامنا کرنا پڑا تو اس میں عوام کا کیا قصور ہے ۔یہ ان کے اپنے اعمال کا کیا دھرا اور ان کا نتیجہ ہے ۔اکابرین پر جس اعتماد کا اظہارکیا گیا وہ اسی عوام کا تفویض کردہ نہیں بلکہ اپنا حق اور اپنے کارناموں کا انعام جان کر عوام کو اس سے منھا کر دیتے ہیں ۔ عوام کی بجائے وہ ایسے اقدامات کو ترجیح دیتے ہیں جن سے عوام کو زیر بار کر کے انہیں مغلوب کیا جائے ۔جمہوریت کے نام پر آمریت اور فرعونیت کے قوانین کو پارلیمنٹ سے منظور کرنے میں عوام تو آڑے نہیں آتے۔ عدلیہ کو نکیل ڈالنے کیلئے قانون کی منظوری سے کیا اسلامی اور جمہوری طرز عمل ہے ۔ اسلام نے تو قاضی کو اتنا مرتبہ دیا ہے کہ خلیفہ وقت اس کے سامنے کئی بار پیش ہوئے اور قاضی کے فیصلوں کو تسلیم کیا ۔ان کے پروٹوکول دینے پر ناراضگی کا باقائدہ اظہار کیا ۔اسے حریف کے ساتھ قاضی کی زیادتی قرار دیا ۔کس کو ترجیح حاصل ہے وہ جس کے دامن پر داغ ہے یا وہ جو اس دامن کے داغ کو دور کرنے کیلئے بٹھایا گیا ہے ۔قرار داد مقاصد کو آئین پاکستان کا دیباچہ قرار دیا جاتا ہے یہ آئین کی اساس قرار دی جاتی ہے ۔ قرار داد مقاصد میں واضح طور پر لکھا ہے جو قانون اسلام اور شریعت سے متصادم ہو گا وہ کالعدم قرار پائے گا۔ اس کے باوجود دیکھنے میں یہ آتا ہے کہ اکابرین کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ عدلیہ کی دی ہوئی سزا کو کم کرنے اسے مٗوخرکرنے اور اس کو معاف کر سکتے ہیں۔جیونائل لاز بالغ اور نابالغ کی جرم میں تخصیص کیا شریعت سے متصادم نہیں۔ اکابرین کو ان کے دور اقتدار و اختیار کے دوران کوئی ٹیڑھی آنکھ سے بھی نہیں دیکھ سکتا ان کا احتساب تو بہت دور کی بات ہے ۔ یہ سب کچھ آئین میں انہی اکابرین نے داخل کیا اور اپنے مفاد ضروریات اور خواہشات کے مطابق آئین سازی کی ۔اس سے عوام کے اعتماد کو تقویت تو نہیں مل سکی البتہ وہ اس سے ڈی مورال ضرور ہوئے ۔عدلیہ یا انتظامیہ عوام نے انہیں سر آنکھوں پر بٹھایا لیکن ان کے اعتماد کو اس طرح پامال کیا گیا کہ عوام یہ اعتماد واپس لینے پر مجبور ہوئے۔ اس اعتماد کے نہ ہونے سے معاشرے میں انارکی اور بدامنی و بدانتظامی کا سماں ہے لیکن اس کیلئے عوام کو مؤرد الزام ٹھہرانے کی بجائے اور اب سے اس اعتماد کی واپسی کا مطالبہ کرنے کی بجائے انہیں نتائج سے یہ ثابت کیا جائے کہ اب ادارے اعتماد کے قابل ہیں اور ان پر اعتماد کرنے میں کوئی مظائقہ نہیں۔

    بذریعہ ای میل بلاگ پوسٹ


    گوگل پلس پر شئیر کریں

    Unknown

      بذریعہ جی میل تبصرہ
      بذریعہ فیس بک تبصرہ

    0 تبصروں کی تعداد:

    Post a Comment