زندگی کے نشیب و فراز ۔۔۔ حصہ اول

    زندگی کے نشیب و فراز۔۔۔علم النفس من المنظور الإسلامي۔۔ حصہ اول

    تجسس اور خود شناسی کی طلب ازل سے انسانی فطرت میں ودیعت کررکھی گئی ہے۔ علمِ نفسیات اس معمہ کہ جس کا نام انسان ہے، کو سلجھانے میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ دلچسپ بات یہ کہ مغربی فلاسفرز نے اپنے تئیں اس کا حل پیش کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کررکھا۔ پے در پے تھیوریز سے سیدھے سادھے افراد کو ایسے گھن چکر میں ڈال دیا گیا کہ وہ شعوری اور لا شعوری طور پر خود اپنی ذات کی گتھیاں
    سلجھانے میں لگے ہوئے ہیں۔ اسکے برعکس اسلام ایک شفاف اور جامع پیرائے میں ان تمام پیچیدگیوں کاواضح جواب ہمارے سامنے رکھتا ہے۔ پھر خواہ معاملہ روحانی مسائل کا ہو یا نفسیاتی الجھنوں کا، یکے بعد دیگرے تمام عقدے خود ہی کھلتے چلے جاتے ہیں۔

    ذیل میں ڈاکٹر عائشہ حمدان کی کتاب Psychology from an Islamic Perspective (علم النفس من المنظور الاسلامی) کے ایک باب Trials & Tribulations of Life کا اردو استفادہ پیشِ خدمت ہے۔ وہ ریاض میں کنگ سعود بن عبدالعزیز یونیورسٹی کے کلیۃ الطب شعبۂ Clinical Psychology میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ اسی اختصاص میں پی ایچ ڈی ہیں۔ علومِ اسلامیہ میں بیچیولرس کر رکھا ہے۔ وہ Journal of Muslim Mental Health کے Faith-based Practice Section میں اسوسییٹ ایڈیٹر کی حیثیت سے بھی اپنے فرائض انجام دے رہی ہیں۔ اس کتاب میں انہوں نے قرآن و سنت کی روشنی میں انسانی نفسیات کے بارے میں کچھ اہم نکات پر اظہارِ خیال کیا ہے اور اس بابت ہونے والے حالیہ ریسرچ ورکس کے قابل اعتماد انکشافات کوانسانی تحقیق کے تناظر میں دیکھنے کے ساتھ ساتھ چودہ سوسال پہلے اترنے والی وحی میں بھی اسکے شواہد دیکھنے کی کوشش کی ہے۔

    تخلیقِ آدمِ خاکی، تخلیقِ ارض و سموات،تخلیقِ حیات و موت کچھ بھی تو بے مقصد نہ تھا! رب العرش کی مشیت تھی کہ ابنِ آدم کو کرۂ ارض میں نیابت سونپ کر اسے مختلف طریقوں سے آزمائے۔کبھی جینا آزمائش بن جاتا ہے اور کبھی یہی زندگی اتنی حسین معلوم ہوتی ہے کہ وقت کے تھم جانے کی آرزو ہونے لگے۔ بے شک وہ اچھے اور برے دنوں کو انسانوں کے مابین گردش کراتا ہے۔

    كُلُّ نَفۡسٍ۬ ذَآٮِٕقَةُ ٱلۡمَوۡتِ‌ۗ وَنَبۡلُوكُم بِيٱلشَّرِّ وَٱلۡخَيۡرِ فِتۡنَةً۬‌ۖ وَإِلَيۡنَا تُرۡجَعُونَ۔
    ترجمہ: ہر متنفس کو موت کا مزا چکھنا ہے۔ اور ہم تو لوگوں کو سختی اور آسودگی میں آزمائش کے طور پر مبتلا کرتے ہیں۔ اور تم ہماری طرف ہی لوٹ کر آؤ گے۔ سورۃ انبیاء ایت نمبر ۳۵

    دنیا میں پائے جانے والے احساسات، حالات و واقعات ، نیکی وبدی کے جذبات، رزق کی تنگی اور فراوانی سب اس کی آزمائش کے مختلف رخ ہیں۔ جب تک صور نہیں پھونکا جاتا تب تک یہ سلسلہ جاری و ساری رہے گا اور ہم سب ایک امتحان کی کیفیت میں رہیں گے۔یہ لمحات مگر بے سود نہیں!کون انکار کر سکتا ہے کہ قطع نظر اس سے کہ ہماری روح گمراہ کن خیالات اور مخلوط عقائد کے ہاتھوں کتنی ہی پراگندہ ہو چکی ہو،مصیبت کے پل میں عبدیت کی تمام تر حسیں جیسے یکدم بیدار ہو جاتی ہیں، سب نظریں عرش کی جانب ہی اٹھنے لگتی ہیں۔

    وَإِذَا مَسَّ ٱلۡإِنسَـٰنَ ٱلضُّرُّ دَعَانَا لِجَنۢبِهِۦۤ أَوۡ قَاعِدًا أَوۡ قَآٮِٕمً۬ا فَلَمَّا كَشَفۡنَا عَنۡهُ ضُرَّهُ ۥ مَرَّ ڪَأَن لَّمۡ يَدۡعُنَآ إِلَىٰ ضُرٍّ۬ مَّسَّهُ ۥ‌ۚ كَذَٲلِكَ زُيِّنَ لِلۡمُسۡرِفِينَ مَا كَانُواْ يَعۡمَلُونَ۔
    ترجمہ: اور جب انسان کو تکلیف پہنچتی ہے تو لیٹا اور بیٹھا اور کھڑا (ہر حال میں) ہمیں پکارتا ہے۔ پھر جب ہم اس تکلیف کو اس سے دور کر دیتے ہیں تو (بےلحاظ ہو جاتا ہے اور) اس طرح گزر جاتا ہے گویا کسی تکلیف پہنچنے پر ہمیں کبھی پکارا ہی نہ تھا۔ اسی طرح حد سے نکل جانے والوں کو ان کے اعمال آراستہ کرکے دکھائے گئے ہیں۔۔۔ سورۃ یونس ایت نمبر ۱۲

    اسی طرح ارشاد باری تعالیٰ
    هُوَ ٱلَّذِى يُسَيِّرُكُمۡ فِى ٱلۡبَرِّ وَٱلۡبَحۡرِ‌ۖ حَتَّىٰٓ إِذَا كُنتُمۡ فِى ٱلۡفُلۡكِ وَجَرَيۡنَ بِہِم بِرِيحٍ۬ طَيِّبَةٍ۬ وَفَرِحُواْ بِہَا جَآءَتۡہَا رِيحٌ عَاصِفٌ۬ وَجَآءَهُمُ ٱلۡمَوۡجُ مِن كُلِّ مَكَانٍ۬ وَظَنُّوٓاْ أَنَّہُمۡ أُحِيطَ بِهِمۡ‌ۙ دَعَوُاْ ٱللَّهَ مُخۡلِصِينَ لَهُ ٱلدِّينَ لَٮِٕنۡ أَنجَيۡتَنَا مِنۡ هَـٰذِهِۦ لَنَكُونَنَّ مِنَ ٱلشَّـٰكِرِينَ (٢٢)فَلَمَّآ أَنجَٮٰهُمۡ إِذَا هُمۡ يَبۡغُونَ فِى ٱلۡأَرۡضِ بِغَيۡرِ ٱلۡحَقِّ‌ۗ يَـٰٓأَيُّہَا ٱلنَّاسُ إِنَّمَا بَغۡيُكُمۡ عَلَىٰٓ أَنفُسِكُم‌ مَّتَـٰعَ ٱلۡحَيَوٰةِ ٱلدُّنۡيَا‌ ثُمَّ إِلَيۡنَا مَرۡجِعُكُمۡ فَنُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمۡ تَعۡمَلُونَ (٢٣)
    ترجمہ:
    وہی تو ہے جو تم کو جنگل اور دریا میں چلنے پھرنے اور سیر کرنے کی توفیق دیتا ہے۔ یہاں تک کہ جب تم کشتیوں میں (سوار) ہوتے اور کشتیاں پاکیزہ ہوا (کے نرم نرم جھونکوں) سے سواروں کو لے کر چلنے لگتی ہیں اور وہ ان سے خوش ہوتے ہیں تو ناگہاں زناٹے کی ہوا چل پڑتی ہے اور لہریں ہر طرف سے ان پر (جوش مارتی ہوئی) آنے لگتی ہیں اور وہ خیال کرتے ہیں کہ (اب تو) لہروں میں گھر گئے تو اس وقت خالص خدا ہی کی عبادت کرکے اس سے دعا مانگنے لگتے ہیں کہ (اے خدا) اگر تو ہم کو اس سے نجات بخشے تو ہم (تیرے) بہت ہی شکر گزار ہوں (۲۲) لیکن جب وہ ان کو نجات دے دیتا ہے تو ملک میں ناحق شرارت کرنے لگتے ہیں۔ لوگو! تمہاری شرارت کا وبال تمہاری ہی جانوں پر ہوگا تم دنیا کی زندگی کے فائدے اُٹھا لو۔ پھر تم کو ہمارے پاس لوٹ کر آنا ہے۔ اس وقت ہم تم کو بتائیں گے جو کچھ تم کیا کرتے تھے
    اسلامی عقیدے کے مطابق آزمائشوں کا مقصد ہمیں کمزور کرنا نہیں بلکہ یہ ہماری ان لاشعوری قوتوں سے خود ہمیں متعارف کروانے کا ایک ذریعہ ہیں جن کی بنیاد پر ہمارے اپنے اندر موجود روحانی ارتقاء کے خشک سوتے رواں چشموں کا روپ اختیار کر لیں۔اس اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ مدو جزر دراصل اللہ کی حکمت و نعمت کا مرقع ہیں۔ظاہرا آزمائش کتنی ہی تکلیف دہ کیوں نہ ہو،یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ اللہ کو صرف اور صرف اپنے بندے کی سرخروئی مطلوب ہے۔ہماری محدود سوچ اس علیم و خبیر کی وسعت تک پہنچنے سے قاصر ہے۔عین ممکن ہے کہ بعض معاملات کو وہ چاہے تو کھلی کتاب کی مانند ہمارے سامنے رکھ دے تو دوسری طرف یہ امکان بھی ہے کہ مصلحت کا وقتی طور پر پوشیدہ رہنا ہی اسکی حکمت کا تقاضا ہو۔

    كُتِبَ عَلَيۡڪُمُ ٱلۡقِتَالُ وَهُوَ كُرۡهٌ۬ لَّكُمۡ‌ وَعَسَىٰٓ أَن تَكۡرَهُواْ شَيۡـًٔ۬ا وَهُوَ خَيۡرٌ۬ لَّڪُمۡۖ وَعَسَىٰٓ أَن تُحِبُّواْ شَيۡـًٔ۬ا وَهُوَ شَرٌّ۬ لَّكُمۡ‌ۗ وَٱللَّهُ يَعۡلَمُ وَأَنتُمۡ لَا تَعۡلَمُونَ ۔
    ترجمہ: (مسلمانو) تم پر (خدا کے رستے میں) لڑنا فرض کردیا گیا ہے وہ تمہیں ناگوار تو ہوگا مگر عجب نہیں کہ ایک چیز تم کو بری لگے اور وہ تمہارے حق میں بھلی ہو اور عجب نہیں کہ ایک چیز تم کو بھلی لگے اور وہ تمہارے لئے مضر ہو۔ اور ان باتوں کو) خدا ہی بہتر جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ۔ سورۃ البقرہ ایت نمبر ۲۱۶۔
    یہ آیت اس دور میں جہاد کی فرضیت کے بارے میں نازل ہوئی تھی جس کے مراحل اتنے کٹھن تھے کہ بڑے بڑوں پر شاق گزرتے تھے۔
    غور کرنے کی بات ہے۔ وہ کہہ رہا ہے کہ کیا عجب جسے میرے بندے خیر سمجھتے ہیں وہ انکی ہلاکت کا سبب ہو اور جو ان پر گراں گزر رہا ہے ، کون جانے اس میں ان کے لیے دونوں جہانوں کی فلاح کا راز مضمر ہو!جہاد فی سبیل اللہ کی اخروی بہاروں کے کیا کہنے ، ان دنیاوی تھپییڑوں کے بالمقابل جو ایک مجاہد کو یہاں جھیلنے پڑتے ہوں!
    علمِ نفسیات میں تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ ہر طرف سے ہارا ہوا انسان تھک ہار کراپنے دل کو ٹٹولتا ہے تو مذہب ہی میں قرار پاتا ہے۔کہیں کوئی بھولی بسری ایمان کی چنگاری جوکچھ ہم خیال ذہنوں کی صحبت پا کر دہکتا انگارا بننے کی تاک میں ہوتی ہے، تحقیق کہتی ہے کہ بنیادی طور پر مشکل وقت میں تشفی کیلئے یہی راہ اپنائی جاتی ہے(۱)۔اسے بعض publications نےreligious coping کا نام دیا ہے جسکی تعریف یوں بیان کی گئی ہے:

    Religious coping is generally defined as the "Process that people engage in to attain significance & meaning in stressful circumstances"
    یعنی مصائب میں گھرے ہوئے حالات میں سکون اور مقصدیت پانےکاذریعہ۔
    مذہب کی طرف بڑھتا ہوا میلان اس امر کا غماز ہے کہreligious coping کے توسط سے لوگ جینے کا مقصد جاننے کی بھرپور سعی کرنے لگے ہیں گویا خیر و شر، عفو و درگزر اورخوشی کمی کے معنی اب اسلام کی قاموس میں کھنگالے جانے کا دور آچکا ہے!
    آزمائش کا مقصد:
    عقیدہ ء اسلامی کے اعتبار سے اسکا بنیادی مدعا مومن اور کافر کے مابین ایک حدِ فاصل کھینچ دینا ہے۔ یہی وہ ساعات ہوتی ہیں جہاں کوئی خالق سے رجوع کر کے زمین پر خلیفتہ اللہ کا منصب سنبھال لیتا ہے تو کوئی گردن اکڑا کر ابلیس ملعون کی ہمراہی اختیار کر لیتا ہے۔

    أَحَسِبَ ٱلنَّاسُ أَن يُتۡرَكُوٓاْ أَن يَقُولُوٓاْ ءَامَنَّا وَهُمۡ لَا يُفۡتَنُونَ (٢) وَلَقَدۡ فَتَنَّا ٱلَّذِينَ مِن قَبۡلِهِمۡۖ فَلَيَعۡلَمَنَّ ٱللَّهُ ٱلَّذِينَ صَدَقُواْ وَلَيَعۡلَمَنَّ ٱلۡكَـٰذِبِينَ (٣) ۔
    ترجمہ۔کیا لوگ یہ خیال کئے ہوئے ہیں کہ صرف یہ کہنے سے کہ ہم ایمان لے آئے چھوڑ دیئے جائیں گے اور اُن کی آزمائش نہیں کی جائے گی (۲) اور جو لوگ اُن سے پہلے ہو چکے ہیں ہم نے اُن کو بھی آزمایا تھا (اور ان کو بھی آزمائیں گے) سو خدا اُن کو ضرور معلوم کریں گے جو (اپنے ایمان میں) سچے ہیں اور اُن کو بھی جو جھوٹے ہیں (۳) ۔۔سُوۡرَةُ العَنکبوت ایت ۲ اور ۳

    post-traumatic growthپر کی گئی ایک ریسرچ اس آیت کی مکمل تائید کرتی نظر آتی ہے۔یہ ثابت ہو چکا ہے کہ مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے ردِ عمل کے طور پر عموما دو انتہائیں دیکھنے میں آتی ہیں۔ یا تو ایمان آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگتا ہے یا ایسی پستیوں میں جا گرتا ہے جہاں سے واپسی کے راستے معدوم سے ہو جاتے ہیں۔بسا اوقات مصائب و آلام میں خود اپنے ہی بارے میں ضبط و تحمل کے ایسے حقائق منکشف ہونے لگتے ہیں جنھیں یسر کے اچھے وقتوں میں کبھی سطح مرتفع پر ابھرنے کا موقع ہی نہ ملا تھا! ۔۔
    یہ بات دھیان میں رہے کہ اللہ علیم و خبیر ہے۔جو کچھ ہو چکا، وہ ہمیشہ سے اسکے علم میں تھا ور جو کچھ ہونے والا ہے ، اسکا علم اسے محیط کیے ہوئے ہے۔آزمائش میں مبتلا کرنے کا مقصود اسکے علم میں اضافہ نہیں کہ کون جنت میں داخل ہو گا اور کس کا ٹھکانہ جہنم ہو گا۔قلم اٹھا لیے گئے اور صحیفے خشک ہو چکے۔لوح محفوظ میں جو رقم ہونا تھا کب کا ہو چکا!اس ابتلا کا مقصد روزِ قیامت اللہ کی صفتِ عدل و انصاف کی تکمیل ہے ۔ اس نے دونوں راستوں کی نشاندہی کر دی پھر چناؤ کا اختیار انسان کو سونپ دیا۔ اب جس کسی نے سمعنا واطعنا کی روش پکڑ لی، وہ ابدی راحتوں کا حقدار ٹھہرا۔اور جس نے سمعنا و عصینا کا نعرہ بلند کیا، اسکے لیے بھڑکتے شعلوں والی دوزخ کا دہانہ کھل گیا۔بلاشبہ جنت میں داخلہ اللہ کی رحمتِ بے کراں کا نتیجہ ہو گا نہ کہ محض انکی اپنی جدوجہد کا ثمر۔حدیثِ رسول میں بیان ہوا ہے کہ:

    ّتمہارے اعمال تمہیں نارِ جہنم سے چھٹکارا نہ دلا پائیں گے۔صحابہ کرام نے فرمایا، اے اللہ کے نبی ، کیایہ بات آپ پر بھی لاگو ہوتی ہے؟فرمایا:ہاں مجھ پر بھی۔میں بھی نجات نہ پاؤں گا جب تک کہ اللہ اپنے رحمت وفضل سے مجھے ڈھانپ نہ لےٗ (بخاری)
    اب یہ اسکی شانِ کریمی پر منحصر ہے کہ کس پر ابرِ رحمت بن کر برس پڑے اور نیک اعمال کا اضعافا مضاعفاہونا کس کے نصیب میں لکھا ہو!اس روز کسی کی جراء ت نہ ہو گی کہ اپنے مقام و مرتبے کے بارے میں اس ذاتِ اقدس کے سامنے لب کشائی کر سکے۔پس مصائب و آلام میں گھرے انسان کیلئے ہر دو طرح عافیت ہے۔ یا تو وہ خطاؤں کے کفارہ کا باعث بنیں گے یا اجر میں اضافے کا سبب ہونگے۔رسول اللہﷺ کا فرمان ہے،

    ّ کوئی تکلیف، کوئی مرض، کوئی غم، کوئی دکھ، کوئی درد، کوئی پریشانی مسلمان پر نہیں گزرتی کہ جسکے بدلے میں اللہ تعالی اسکے گناہوں میں تخفیف نہیں کر دیتے چاہے وہ ایک کانٹے کی چبھن کے برابر ہی کیوں نہ ہوٗ (بخاری و مسلم)

    ایک بہت اہم نکتہ کی جانب توجہ ہٹنے نہ پائے کہ آزمائشیں اور فتنے حدود اللہ سے تجاوز کرنے والوں کی نسبت یہ اللہ کے قہر کا اظہار بھی ہو سکتی ہیں۔مگر جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ خیر کا پہلو معبود کی معصیت کرنے والے کیلئے بھی متوفر ہے۔وہ بارہا موقع فراہم کرتا ہے کہ بھٹکا ہوا راہی پھر سے سوئے حرم چل پڑے، شاید اسے اسی طرح جھنجھوڑ دینے سے ہی دیدہء بینا نصیب ہو جائے اور وہ تائب ہو کر صراط مستقیم پر گامزن ہو جائے کہ اس دنیا میں دی جانے والی سزا سے کہیں بڑھ کر اس دنیا کی ہولناکی ہے ۔

    ظَهَرَ ٱلۡفَسَادُ فِى ٱلۡبَرِّ وَٱلۡبَحۡرِ بِمَا كَسَبَتۡ أَيۡدِى ٱلنَّاسِ لِيُذِيقَهُم بَعۡضَ ٱلَّذِى عَمِلُواْ لَعَلَّهُمۡ يَرۡجِعُونَ۔
    ترجمہ: خشکی اور تری میں لوگوں کے اعمال کے سبب فساد پھیل گیا ہے تاکہ خدا اُن کو اُن کے بعض اعمال کا مزہ چکھائے عجب نہیں کہ وہ باز آجائیں ۔ سورۃ۔ الروم ایت نمبر ۴۱

    یہاں چھوٹے عذاب سے مراد دنیاوی سختیاں اور مشکلات ہیں۔یہ آیات گویاراہِ خد ا سے متزلزل ہو جانیوالے کیلئے یاد دہانی بھی ہے اور وعید بھی۔ اسلئے کہ میدانِ محشر میں جب ترازو لگے گا تو ہمارے اعمالِ نیک و بد دونوں پلڑوں میں رکھ دیے جائیں گے۔تو جسکا دایاں پلڑہ بھاری ہو گیا ،وہ دلپسند عیش میں ہو گا اور جسکا بایاں پلڑہ جھک گیا اسکی ابتر حالت دیکھنے لائق نہ ہو گی۔ بالفاظِ دیگر ان آزمائشوں سے نکلنے کے بعد ان شاء اللہ یا تو نار حامیہ سے محفوظ کر دیا جائیگا یا فردوس بریں کی طرف بلند کر دیا جائیگا۔

    اس جہدِ مسلسل کا مدعا روحانی طراوت کے سوا اور کیا ہو گا؟ سونا کندن بننے سے قبل بھٹی میں تپ کر ہی خام مال بنتا ہے۔ ویسے ہی روح کی بالیدگی پانے کیلئے آزمائشوں کی تپش سہہ کر ہی اس کی غلاظت نکال باہر کی جا سکتی ہے تاکہ فطرتِ سلیمہ اپنی خالص شکل میں نکھر کر روحانیت کو پنپنے کا موقع فراہم کرے۔
    بلاشبہ دنیاوی زندگی پانی کے بلبلے کی سی ہے تو اخروی زندگی حیاتِ ابدی کی جانب پہلا قدم!اب مومن کیونکہ آخرت کیلئے حریص اور عقیدہء قضا و قدر پر ایمانِ کامل رکھنے والا اور اطاعتِ الہی کو اپنا اولین شعار ماننے والا ہوتا ہے، اس لیے ان تمام حقائق کا ادراک ہو نے کی بنا پر خلعتِ صبر اوڑھے نفسیاتی طور پر پہلے سے زیادہ قوی ترہو جاتا ہے۔ اعصاب کا تناؤ خود بخود کم ہونے لگتا ہے اور یوں راحتوں بھری دنیا کا تصور امیدِ سحر بن کر اردگرد کی ڈستی بے بسی کو تابناک اجالوں کی آماجگاہ بنا دیتا ہے۔اس حلاوت کا مزہ وہی جانے ہے جسے فہم و فراست دے دی گئی ہواور جوصبر کے اجر میں ملنے والی قربِ الہی کی لذت سے آشنا ہو چکا ہو!۔
    وَلَنَبۡلُوَنَّكُم بِشَىۡءٍ۬ مِّنَ ٱلۡخَوۡفِ وَٱلۡجُوعِ وَنَقۡصٍ۬ مِّنَ ٱلۡأَمۡوَٲلِ وَٱلۡأَنفُسِ وَٱلثَّمَرَٲتِ‌ۗ وَبَشِّرِ ٱلصَّـٰبِرِينَ۔
    ترجمہ۔ اور ہم کسی قدر خوف اور بھوک اور مال اور جانوں اور میوؤں کے نقصان سے تمہاری آزمائش کریں گے توصبر کرنے والوں کو (خدا کی خوشنودی کی) بشارت سنا دو۔۔ سورۃ البقرہ ایت نمبر ۱۵۵۔
    اور پھر فرمایا۔
    أُوْلَـٰٓٮِٕكَ عَلَيۡہِمۡ صَلَوَٲتٌ۬ مِّن رَّبِّهِمۡ وَرَحۡمَةٌ۬‌ۖ وَأُوْلَـٰٓٮِٕكَ هُمُ ٱلۡمُهۡتَدُونَ۔
    ترجمہ۔ یہی لوگ ہیں جن پر ان کے پروردگار کی مہربانی اور رحمت ہے۔ اور یہی سیدھے رستے پر ہیں۔ سورۃ البقرہ ایت ۱۵۷
    نبی ﷺ کا فرمان ہے:
    ‘کوئی مسلمان ایسا نہیں جسے چوٹ پہنچی ہو اور وہ اس لمحے کہے بیشک ہم اللہ کے ہیں اور ہمیں اسی کیجانب لوٹ کر جاناہے اور پھر مزید کہے،اے اللہ میری تکلیف کے بدلے مجھے اجر عطا فرمااور مجھے اسکا نعم البدل عنایت فرما دے، تو اللہ اسکی دعا رائیگاں نہیں جانے دیتا’(مسلم)

    بذریعہ ای میل بلاگ پوسٹ


    گوگل پلس پر شئیر کریں

    Unknown

      بذریعہ جی میل تبصرہ
      بذریعہ فیس بک تبصرہ

    0 تبصروں کی تعداد:

    Post a Comment