محافظ نظریہ پاکستان

    محافظ نظریہ پاکستان۔۔۔۔۔۔۔تحریر ۔ حسنین ملک
    یہ 23مارچ 1940ء کی بات ہے جب قائد اعظم ؒ کے کہنے پر ایک نوجوان صحافی حمید نظامی مرحو م نے لاہورسے پندرہ روزہ ’’نوائے وقت ‘‘ کا اجراء کا اعلان کیا جس کامطمح نظرمسلم قومیت کے حقوق ومفادات کاتحفظ اوراُردو زبان کی خدمت تھا۔ پہلا شمارہ29 مارچ 1940ء کو منظر عام پر آیا۔ دو سال بعد15 نومبر1942ء کو اِ س کوہف روزہ کردیا گیا
    محافظ نظریہ پاکستان۔۔۔۔ مجید نظا می

    22 جولائی 1944ء سے یہ پندرہ روزہ اخبار روزنامہ نوائے وقت میں تبدیل ہوا۔ دوقومی نظریہ کے محافظ سپہ سالار صحافت کی حیثیت سے اِس سفر پر25فروری1962ء تک ایک کامیاب مجاہد کے طور پر چلتے رہے۔ وفات سے قبل اپنے بھائی مجید نظامی کو لند ن سے بلاکر یہ حق وصداقت کا علَم اُن کے سُپر دکردیا۔
    محترم مجیدنطامی شہنشاہ صحافت نے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ اس مشِن میں گزار دیا۔ محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیرخان نے چند ہفتے پہلے ایک تقریب میں محترم مجید نظامی کی پچاس سالہ شعبہ صحافت میں خدمات کوخراج تحسین اُن کو خطاب ’’محافظ نظریہ پاکستان‘‘ دے کر کیاہے۔
    واقعی ایسے افرادصدیوں میں پیداہوتے ہیں جو اپنی قوم کے لیے ہر لمحے سوچتے ہیں جنکی زندگی کاہرلمحہ ایک نظریہ اور مشن پرموقو ف ہوتا ہے۔شعبہ صحافت میں آج بے شمار بڑے بڑے کالم نگار اِن کے لگائے ہوئے پھول ہیں ۔ آج ہمارے ہاں جرنلزم زیادہ تر زرد صحافت بن چُکی ہے مگر ایسے افراد کونظامی برادران کی زندگیوں کا مطالعہ کرنا چاہیے کہ صحافت کی اصل تعریف کیاہے؟۔ آج حکومت یا پرائیویٹ سیکٹر کے شعبہ صحافت کے لوگوں کو مل کر ایک ایسی شعبہ صحافت کی یونیورسٹی بنانے کی ضرورت ہے جہاں کا سلیبس مکمل طور پرمجید نظامی کے سکول آف تھاٹ سے حاصل کیاجائے۔ مجید نظامی صاحب صحافت میں ایک ادارہ ہیں اور اِن کے پچاس سالہ تجربے سے استفادہ کیاجائے تاکہ ہمارے مُلک میں اِن کے نقش قد م پر چلنے والی نوجوان نسل اس شعبے میں آسکے۔ یہاں سرٹیفیکیٹ ،ڈپلومہ اور ڈگری پروگرام جرنلزم میں شروع کیے جائیں۔اور اُنکو وہ اُصول،قوانین اورنظریات سے روشناس کروایا جائے جس کو ساری زندگی مجید نظامی نے اپنی زندگی کا نظریہ حیات سمجھ کر جاری رکھا۔اِس یونیورسٹی کون نظامی برادران کی اِس شعبے میں لازوال خدمات کی عقیدت میں نظامی یونیورسٹی کے نام پر رکھاجائے ۔آج کی نوجوان نسل نظریہ پاکستان سے بالکل ناواقف ہے۔ ۔نظریہ پاکستان ٹرسٹ مجید نظامی صاحب کی زیرنگرانی اپنے وسائل سے نوجوان نسل تک جہاں تک ممکن ہورہا ہے اپنے وسائل سے نظریہ پاکستان کا پیغام پہنچارہاہے اورسکولوں ،کالجوں ے بچوں کویہ بتارہاہے کہ کس طرح ہم نے یہ وطن کتنی قربانیوں سے حاصل کیاتھامگر ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم نظریہ پاکستان کو بطور ایک مضمون سکولوں میں سلیبس کاحصہ بنایں تاکہ جب یہ بچے نوجوان ہوں تو ہر ایک مجید نظامی کی فکر وسوچ سے لبریز پاکستانی نظر آئے۔ ۔ مجید نظامی کی شخصیت نے صرف نظریہ پاکستان کے عَلم کو ہی نہیں بلند کیا اگر ہم اُن کی خدمات اس مُلک و قوم کے لیے اس شعبے میں دیکھیں تو شاید ہی دُنیا میں کوئی شعبہ صحافت میں ایسی شخصیت ہوجس نے اپنے وطن کی اِس شعبے میں اتنی خدمت کی ہو۔مجیدنظامی دُنیا صحافت میں شجر سایہ دارکی حیثیت رکھتے ہیں جس نے ہر لمحے اِس مُلک کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کی ہر دور میں حفاظت کی
    نظریہ پاکستان ،مسئلہ آزاد کشمیر،محصورین بنگلہ دیش کی اخلاقی مدد،محسن پاکستان کی طویل اسیری کے دوران نوائے وقت کا کردارہو ۔ کوئی قومی ایشوہو ہر موقعہ پر وہ سُرخروہوئے ۔پاکستان کواٹیمی طاقت کرنے کے لیے اُس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کویوں مخاطب ہوئے ۔’’آپ نے دھماکہ نہ کیا تو قوم آپ کا دھماکہ کر دے گی ‘‘۔ اور پھر دھماکہ ہوگیا اللہ اکبر ! ۔آج مجید نظامی نے جس سفرپر پچاس سال صَرف کیے ہیں اگر وہ مڑکر پیچھے دیکھیں تو اُن کو اپنی زندگی میں ایک لمحہ بھی ایسا نہیں ملے گا جس پر اُنکو ملال ہو ۔وہ اَب تک نہ صرف اپنے بھائی سے کیے ہوئے وعدے پر سُرخروہویے ہیں بلکہ آج قائداعظم ؒ اور اقبال ؒ کی ارواح بھی عالم برزخ میں اِس بات پر خوش ہوتی ہوں گی کہ اس پاک دھرتی پر مجیدنظامی کی شکل میں ایک ایسا مرد مومن موجود ہے جو نظریہ پاکستان کی سربلند ی کاعِلم اُٹھائے ہوئے ہے۔،تحریک ختم نبوت ہویا تحریک نظام مصطفےٰ اُن کا کردار ہر لمحے لبیک یا رسول اللہ کہتے ہوئے دکھائی دیا ۔مجیدنظامی نے اخبارکو کبھی اپنا کاروبار نہیں بنایا ۔ہر جابر حکمران کے سامنے کلمہ حق کو بلند کیا۔ایک باکردار صحافی کی حیثیت سے ہمیشہ حق وصداقت کاپرچم سربلند رکھا۔حکمرانوں کی تحریص وترغیب اِن کے قدموں کو متزلزل نہیں کرسکتی۔
    کیا خوب حبیب جالب نے کہاہے کہ
    ’’ہمارے ذِہن پر چھائے نہیں ہیں حرص کے سائے
    جو ہم محسوس کرتے ہیں وہی تحریر کرتے ہیں‘‘

    بذریعہ ای میل بلاگ پوسٹ


    گوگل پلس پر شئیر کریں

    Unknown

      بذریعہ جی میل تبصرہ
      بذریعہ فیس بک تبصرہ

    0 تبصروں کی تعداد:

    Post a Comment