زندگی کے نشیب و فراز۔۔۔دوسرا اور اخری حصہ

    زندگی کے نشیب و فراز۔۔۔علم النفس من المنظور الإسلامي۔۔ دوسرا اور اخری حصہ
    شیخ الصالح نے آزمائش کے مراحل سے گزرنے والوں کیلئے پانچ(۵) فوائد بیان کیےہیں:
    ۱. ایمان ، امید اور عبادت میں ارتکاز اور ارتقاء۔دنیاوی نشیب و فراز اس حقیقت کامنہ بولتا ثبوت ہے کہ بشری کمزوریاں تماتر ظاہری ترقی کے باوجود خدائی نصرت کی محتاج ہیں اور رہیں گی۔یہ احساس ہو جانا بذات خود عقیدہء توحید و وحدانیت کو جلا بخشنے کا باعث بنتا ہے۔

    ۲. دنیا کی بے ثباتی سے آگہی۔کبھی ہر سو خوشیاں بکھری ہوتی ہیں تو کبھی ہر نعمت منہ موڑتی محسوس ہوتی ہے۔گردشِ دوراں کے یہ بدلتے رنگ تنبیہ کرتے ہیں کہ جگہ دل لگانے کی دنیا نہیں ہے!اسے تو فنا ہو کر ہی رہنا ہے۔اگر دل لگا نا ہی ہے توکسی وقتی سراب کے پیچھے بھاگنے کی بجائے کیوں نہ کسی ایسی آرزو کو دل سے لگا یا جائے جو عظیم بھی ہو اور خوبصورت بھی اور جس کے پورا ہونے کی صورت میں ہر ادھورے خواب کو اسکی تعبیر مل جائے!

    ۳. قضا وقدر پر ایمان راہِ اعتدال پر چلنے کے علاوہ آدابِ اسلامی کی روشنی میں خوشی اور غم کی اخلاقی اقدار سے روشناسی۔
    سورۃ الحدید ایت ۲۲ اور ۲۳ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
    مَآ أَصَابَ مِن مُّصِيبَةٍ۬ فِى ٱلۡأَرۡضِ وَلَا فِىٓ أَنفُسِكُمۡ إِلَّا فِى ڪِتَـٰبٍ۬ مِّن قَبۡلِ أَن نَّبۡرَأَهَآ‌ۚ إِنَّ ذَٲلِكَ عَلَى ٱللَّهِ يَسِيرٌ۬ (٢٢) لِّكَيۡلَا تَأۡسَوۡاْ عَلَىٰ مَا فَاتَكُمۡ وَلَا تَفۡرَحُواْ بِمَآ ءَاتَٮٰڪُمۡ‌ۗ وَٱللَّهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخۡتَالٍ۬ فَخُورٍ (٢٣) ۔

    ترجمہ۔ کوئی مصیبت ملک پر اور خود تم پر نہیں پڑتی مگر پیشتر اس کے کہ ہم اس کو پیدا کریں ایک کتاب میں (لکھی ہوئی) ہے۔ (اور) یہ (کام) خدا کو آسان ہے (۲۲) تاکہ جو (مطلب) تم سے فوت ہوگیا ہو اس کا غم نہ کھایا کرو اور جو تم کو اس نے دیا ہو اس پر اترایا نہ کرو۔ اور خدا کسی اترانے اور شیخی بگھارنے والے کو دوست نہیں رکھتا (۲۳)

    ۴. جب معلوم ہے کہ پتا بھی نہیں ہلتا بجز اسکی رضا کے تو پھر دنیاوی کامیابی پر یہ کیسی اکڑ کہ وہ دل جسے صرف عجز و نیازسے خالق کی تسبیح وتحمید کیلئے دھڑکنے کا حکم دیا گیا، وہ رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر کو اپنے اندر راہ بنانے دے اور وقتی ناکامی پر یہ کیسا ملال کہ حسرت و یاس کی بدولت کفر کا خدشہ لاحق ہونے لگے!

    روحانی ضعف اور بشری لغزشوں کا ادراک قبل اس کے کہ وہ ساعت آن پہنچے جب پانی سر سے گزر چکا ہو گا اور مہلت پر مہر لگ چکی ہو گی، اسوقت کا عذاب دنیا کے ہلکے پھلکے جھٹکوں سے ہزار گنا شدید تر ہو گا۔

    مَّآ أَصَابَكَ مِنۡ حَسَنَةٍ۬ فَمِنَ ٱللَّهِ‌ۖ وَمَآ أَصَابَكَ مِن سَيِّئَةٍ۬ فَمِن نَّفۡسِكَ‌ۚ وَأَرۡسَلۡنَـٰكَ لِلنَّاسِ رَسُولاً۬‌ۚ وَكَفَىٰ بِٱللَّهِ شَہِيدً۬ا۔
    ترجمہ۔ اے (آدم زاد) تجھ کو جو فائدہ پہنچے وہ خدا کی طرف سے ہے اور جو نقصان پہنچے وہ تیری ہی (شامت اعمال) کی وجہ سے ہے اور (اے محمدﷺ) ہم نے تم کو لوگوں (کی ہدایت) کے لئے پیغمبر بنا کر بھیجا ہے اور (اس بات کا) خدا ہی گواہ کافی ہے۔ سورۃ النساٗء ایت ۷۹

    وَمَآ أَصَـٰبَڪُم مِّن مُّصِيبَةٍ۬ فَبِمَا كَسَبَتۡ أَيۡدِيكُمۡ وَيَعۡفُواْ عَن كَثِيرٍ۬ ۔
    ‘تم لوگوں پر جو بھی مصیبت آئی ہے، تمہارے اپنے ہاتھو ں کی کمائی سے آئی ہے اور بہت سے قصورواروں سے وہ ویسے ہی درگزر کر جاتا ہے ۔سورة الشّوریٰ ایت ۳۰

    مذکورہ بالا آیت دلالت کرتی ہے کہ اللہ غفور الرحیم ہے ۔وہ ہمیں ان مراحل سے اسلئے گزارتا ہے تاکہ ہم اسکی جانب لپکیں اور اسکی کا آسرا ڈھونڈیں، بس کسی طور اسکے عفو کے مستحق بن جائیں!

    وَلَنُذِيقَنَّهُم مِّنَ ٱلۡعَذَابِ ٱلۡأَدۡنَىٰ دُونَ ٱلۡعَذَابِ ٱلۡأَكۡبَرِ لَعَلَّهُمۡ يَرۡجِعُونَ ۔
    اور ہم اُن کو (قیامت کے) بڑے عذاب کے سوا عذاب دنیا کا بھی مزہ چکھائیں گے۔ شاید (ہماری طرف) لوٹ آئیں۔سُوۡرَةُ السَّجدَة ۲۱

    ۵. حصولِ صبر۔ سچائی پر ڈٹے رہنا، اطاعتِ الہی میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کرنا صبر و تحمل کا متقاضی ہے، ایسے ہی جیسا کہ باطل سے اجتناب اور کفر و معصیت سے احتراز اللہ کی توفیق سے دی گئی استقامت کے بغیر ممکن نہیں۔

    ارشاد باری تعالیٰ۔
    وَمَا يُلَقَّٮٰهَآ إِلَّا ٱلَّذِينَ صَبَرُواْ وَمَا يُلَقَّٮٰهَآ إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِيمٍ۬ ۔
    اور یہ بات ان ہی لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جو برداشت کرنے والے ہیں۔ اور ان ہی کو نصیب ہوتی ہے جو بڑے صاحب نصیب ہیں۔
    سُوۡرَةُ حٰمٓ السجدة ایت ۳۵

    حدیث میں بیان ہوا ہے کہ مومن کا معاملہ انوکھا ہے کہ اسکے لیےہر دو طرح عافیت ہے۔اگر اسے کسی بات سے خوشی ملتی ہے تو شکر ادا کرتا ہے اور اس میں اسکے لیے بھلائی ہے۔اگر اسے کسی طرف سے غمی ملتی ہے تو صبر کا دامن تھام لیتا ہے اور اس میں بھی اسکے لیے خیر ہے۔ (مسلم)

    امام ابنِ قیم الجوزیہ اس موضوع پر دریا کو کوزے میں بند کرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں:

    ’’بلاشبہ کوئی طاقت اور کوئی قوت نہیں سوائے اسکے جو اللہ کا اختیار ہے۔وہی ہے جسکے دربارِ عالی مقام میں ہم فریاد رسی کرتے ہیں اور استجابت کی امید لگائے منتظرِ کرم رہتے ہیں۔وہی رحمٰن و رحیم کہ جسکی طرف دنیا و آخر ت میں داد رسی کیلئے مچلتی نگاہیں اٹھتی ہیں۔غنی ایسا کہ اسکے جود وسخا کی کوئی ابتدا ہے نہ کوئی انتہا۔جو پلک جھپکنے میں اپنے بندۂ حقیقی کے دل کو اپنی انگلیوں کے درمیان ایسے قالب میں ڈھال دے کہ جب اسے نوازا جائے تو کلمہء شکر ادا کرے، جب آزمایا جائے تو ثابت قدم رہے، جب خطا کرے تو فی الفور اسکے لبوں پراستغفار جاری ہو جائے۔کہ یہی تین خصائل بندہ ء مومن کی طمانیت کی معراج ہیں اور دو جہانوں میں فلاح کی کلیدہیں۔ٗٗ

    مختصراً انکی شرح آپکو بتاتے چلیں: اولا یہ کہ جو نعمتیں اللہ رب العزت کی طرف سے بندے پر یکے بعد دیگرے نچھاور کی جاتی ہیں ، تین ستونوں کی بنیاد پراستوار’شکرٗ کی عمارت انکی بقا کی مضمن ہے۔ان تین ستونوں میں باطنی طور پردل سے اعترافِ نعمت،ظاہری طور پرمستحسن طریقے سے اسکا زبانی اقراراور تشکر،اور جس نے یہ انعام کیا ہے اسکی رضا کے عین مطابق اسکا استعمال شامل ہیں۔یہ بنیادیں جتنی پختہ ہونگی اتنا ہی اظہارِتشکرٗہو گا اور رب کی رضا حاصل ہو گی۔ثانیا، اللہ کا تمام تر عنایتوں کے بعداپنے بندے کو آزمانا ، ایسے میں صبرٗ کامیابی کی کنجی ہے مگر یہ صبر قائم کیسے رہے؟ اسکی بقا بھی تین ستونوں کی مرہونِ منت ہے:اپنے نفس کے وسواس کو جھٹک کرغم وغصہ کرنے کی بجائے ثابت قدمی سے اللہ کی مشیت پر راضی رہنا، زبان پر قابو رکھنا کہ کہیں ناشکرے پن یا شکوہ کا کوئی کلمہ ادا نہ ہو جائے ،اور اپنے جوارح کو قابو میں رکھنا یعنی نوحہ کنی، سینہ کوبی، کپڑے پھاڑنے اور بال کھینچنے جیسی جاہلیت سے خود کو باز رکھنا۔اور جو کوئی ان ستونوں کی بنیادیں بھرنے میں کامران ہو گیا، پھر اسکی تکلیف اسکے لیے باعثِ راحت بن جائیگی اور وہ اس میں پنہاں خیر کی تہہ تک انشاء اللہ پہنچ جائیگا۔کہ اللہ عز و جل اپنے بندے کو تکلیف پہنچانے کی نیت سے آزمائش میں نہیں ڈالتابلکہ اسکے تقوی اور اسکی عبدیت کو جانچنے کی غرض سے اسے امتحان میں ڈالتا ہے۔اسلئے کہ آسودگی میں تو اکثریت ہی حمد و ثناء میں مشغول رہتی ہے۔مقامِ عبدیت کی انتہا تو یہ ہے کہ جس طرح ظاہری طور پر انعام و اکرام پر مسرت کا اظہار کیا جاتا ہے، ویسے ہی عسر اور تکلیف کے لمحوں میں بھی ایسا ہی قوی اعتقاد ہواور اسی درجے کی قناعت ہوکہ اس میں عادل و منصف ربِ رحیم و کریم کی جانب سے صرف اور صرف خیر ہی ہو گی ، لہذا جس میں رب راضی، اسی میں اسکا بندہ بنا لیت و لعل کیے راضی۔درحقیقت یہ وہ پیمانہ ہے جس کی بنیاد پر بندوں کی چھانٹی کر کے انکے درجات کا تعین کیا جاتا ہے۔ٗٗ ۔

    شیخ ابن العثیمین رحمہ اللہ کے الفاظ میں آزمائشوں میں گھرے انسانوں کو انکے طرزِعمل کے اعتبار سے چاراصناف میں منقسم کیا جا سکتا ہے ۔

    1- ناشکراپن: اللہ کے فیصلوں پر اعتراضات اور ناخوشی کا اظہار کرنے والاطبقہ۔انکایہ ردِ عمل، ممنوعہ میں شمار ہو گا۔

    2- صبر: اپنی بساط کے مطابق تحمل کرنے کی مقدور بھر سعی کرنے والا گروہ چاہے دلی طور پر حالات سے کتنے ہی کبیدہ خاطر کیوں نہ ہوں مگر انکا ایمان انہیں صنفِ اول میں شامل ہونے سے روکے رکھتا ہے۔ انکا ردِ عمل واجب کے دائرہ میں آئیگا۔

    3- تسلیم و رضا: صالحین کی وہ جماعت جو ہر حال میں خندہ پیشانی سے ہر حزن و ملال کا سامنا کرنے کیلئے کمر بستہ نظر آتے ہیں۔ انکا اسلام کڑے لمحات یا آسودگی کی گھڑیوں پر مبنی نہیں۔ وہ زمان و مکان کی ان حدود سے آگے نکل چکے۔یہ ردِ عمل مستحب کے زمرے میں آئیگا۔

    4- سکینت اور اظہارِ تشکر: وہ بلند بخت جماعت جو بے نیازی کے اس درجے کو چھو چکی جہاں آزمائش و ابتلا ، اللہ کے انعامِ خاص کا دوسرا نام ہے جس پر شکر ادا کرتے انکی زبانیں نہیں تھکتیں کہ اسکے بدلے حیاتِ جاوداں کی بشارتیں انکے ہر غم کو غلط کر گئی ہوتی ہیں۔یہ ردِ عمل سب سے اعلے و ارفع مقام پالینے کے مترادف ہے کہ یہ حقِ عبدیت ادا کر کے سرخرو ہو چکے!

    دین کی طرف رجوع کا بڑھتا ہوا میلان:

    روزمرہ زندگی میں پیش آنے والے بیشتر سنگین واقعات خواہ وہ کسی بیماری سے متعلق ہوں، بات چاہے جسمانی صحت کی ہو رہی ہو یا روحانی بیماریوں اور نفسیاتی مشکلات کی،کسی قریبی عزیز کی موت کا معاملہ ہو  یا کسی نے نشانہء تضحیک و استہزا بنایا ہو، دین کی جانب مائل ہونے کا بڑھتا ہوا رجحان معاشرے میں واضح طور پر نظر آ رہا ہے۔اور اسکے نہایت مثبت نتائج دیکھنے میں آئے ہیں ۔۔Pargamentکا کہنا ہے کہ فرد کے عمومی مذہبی رجحان اور گردوپیش میں ہونے والے واقعات کو ایک دوسرے سے جدا نہیں رکھا جا سکتابلکہ انکے ارتباط سے مشکل مراحل کا بہتر طور پر سامنا کرنے میں معاونت ملتی ہے۔ ۔گویا مذہبی رجحانات کو عملی صورت میں بطور علاج لاگو کرنا خاصا سودمند رہے گا۔اسی طرح مصائب و آلام کی ساعات میں روحانیت امیدِ بادِ بہار کا کام دیتی ہے، اعصاب کو پرسکون کرتی ہے اور زخموں پر مرہم رکھنے کا عمل بخوبی ادا ہو جاتا ہے، تصویر کے روشن پہلو کی طرف دیکھنے کا میلان ہوتا ہے ، اپنی ذات کی کم مائیگی اور لاچاری کیساتھ ایک غیبی طاقت کے وجود کا اثبات محسوس کیا جا تا ہے اور مادی دنیا کی حدود و قیود سے بالاتر ہو کر وسیع طرزِ فکر کو پھلنے پھولنے کا موقع فراہم ہوتا ہے۔

    محققین اس بات کے قائل ہیں کہ بطور اجتماعیت مذہب سے منسلک ہونے کا فرد کی جسمانی و روحانی صحت پر خاطر خواہ اثر پڑتا ہے۔نہ صرف رجوع الی اللہ میں تقویت ملتی ہے بلکہ توکل کے مفہوم کا صحیح ادراک ہوتا ہے اور صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے کی بجائے اسکی دی ہوئی صلاحیتیں بروئے کار لانے کا حوصلہ ملتا ہے ۔

    اسکے برعکس تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ جو لوگ صرف اپنے زورِ بازو کے بل بوتے پر دنیا کو تسخیر کرنے کے خواب دیکھتے ہیں اور اللہ کے وجود سے انکاری ہیں اور دوسری طرف وہ لوگ جو سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر کسی ان دیکھی طاقت کے پیچھے راہبانیت کی روش پرجا نکلتے ہیں، ہر دو صورت میں انکے نفسیاتی مرض کی علامات میں تحسن کی بجائے تنزلی دیکھنے کو ملی ہے
    ۔ عقیدہء اسلام ۱۴۰۰ سال پہلے ہی یہ مسائل سلجھا چکا ہے۔جہاں مطلوبہ ہدف کو پانے کیلئے، توکل کا مفہوم اللہ پر یقینِ کامل رکھتے ہوئے شریعت کے دائرہ ء عمل میں رہ کر ، اللہ کی عطا کردہ عقل و فراست کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی تماترجدو جہد صرف کر دینے اور پھر نتیجہ اللہ رب العزت پر چھوڑ دینا ایمان کا حصہ ہے۔
    بشکریہ۔۔۔۔ایقاظ ڈاٹ کام

    بذریعہ ای میل بلاگ پوسٹ


    گوگل پلس پر شئیر کریں

    Unknown

      بذریعہ جی میل تبصرہ
      بذریعہ فیس بک تبصرہ

    0 تبصروں کی تعداد:

    Post a Comment