حبیب جالب کی نذر


    حبیب جالب کی نذر۔۔۔۔۔۔۔۔ تحریر: عباس ملک
    حبیب جالب کو عوامی شاعر ہونے کا اعزاز حاصل ہے ۔انکی شاعری میں عوام کی حالت زار اور عوام کے مصائب والم جس طرح بیانیہ انداز میں ادا ہوئے وہ انہی کا امتیاز ہے ۔سرمایہ داروں اور فرعونوں کو جس طرح اس عوامی شاعر نے للکارا اور جس طرح بے سروسامانی کے عالم میں ان کے سامنے کھڑے ہوئے اور جس استقامت سے اپنے مشن کا جاری رکھا وہ انہی کا خاصہ ہے ۔ اگرچہ وہ خود کواپنے قلم کو بیچ کر اتنا کچھ اکھٹا کرنے کی پوزیشن میں تھے کہ آج ان کی بیوہ اور ان کے پسماندگان بھی ڈیفنس کی کسی کوٹھی میں عیش و آرام سے رہ رہے ہوتے ۔اس مزدور طینت شاعر نے بکنے جھکنے اور ہٹنے سے انکار کر کے تاریخ میں اپنے آپ کو رقم کرالیا لیکن جس عسرت سے اس نے زندگی بیتائی اس سے کہیں اگے سرمایہ داروں کے اس دور میں اس کے پسماندگان گذار رہے ہیں۔ چند حروف خوشنودی کے اگر اس کے قلم سے ادا ہوتے تو شاید اس کی نسلیں بھی سنور جاتیں ۔مشن کو مقدم جان کر جالب نے ثابت کیا کہ وہ واقعی سرمایہ داروں اور سرمایہ داری کے استحصال واستبداد کے خلاف حقیقی حق کی آواز اورترجمان ہیں ۔آج کے دور میں نسوانی عشق اور چند قابل قبول اشعار لکھ کر شعرا اتنا کچھ بنا رہے ہیں کہ انہیں کسی کی محتاجی نہیں ۔باوجودیکہ عشق و محبت کے ان پیرکاروں کے اس پیغام کا اسلام اور شریعت سے متصادم ہونا اور مشرقیت کی قبا چاک کرنے میں ہراول کا کردار ہے پھر بھی انہیں تقدم و توقیرکے مراتب سے نوازا جاتا ہے ۔ ان کی برسیاں تزک و احتشام سے منائی جاتی ہیں ۔ان کے دن اور ان کی یاد میں آئے دن تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔ان کے نام سے شاہراؤں اور قومی عمارات کو منسوب کیا جاتا ہے ۔حیف ہے اس معاشرے پراور ان اکابرین پر جو جالب صاحب کی نظمیں ترنم کے ساتھ اپنے جلسوں کی شان بڑھانے کیلئے تو استعمال کرتے ہیں لیکن انہیں توفیق نہیں ہوئی کہ وہ ان کے حفظِ مراتب کے مطابق مقام بھی دے سکیں۔ان کے نام سے کوئی شاہراہ کوئی عمارت منسوب کی جاتی ان کی یاد میں تقریبات منعقد ہوتیں ان کے برسی پر سرکاری اہتمام کیا جاتا ۔ان کے کلام کو عام کیا جاتا ۔ ان کے کلام کو نصاب میں شامل کیا جاتا ۔ان کی اولاد اور بیوہ کو سپورٹ کیا جاتا ۔انہیں کہیں نوکری دی جاتی ۔ ان کے باعزت روزگار کی کوئی سبیل کی جاتی ۔انہیں ان کی وجہ سے نہیں جالب صاحب کی ملی خدمات کے تناظر میں اس برتاؤ کا مستحق گردانا جاتا ۔جالب سرمایہ داروں کو للکارتے ہوئے جہاں فانی سے رخصت ہوئے انکی اولا د سڑکوں پر احتجاج کرتے ہوئے رسوا ہو رہی ہے ۔انکی بیوہ ذیابیطس کے مرض میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر حکومت کی طرف سے ملنے والی امداد کی منتظر ہے کہ وہ ملے تو دوا کے چند قطرے اس حلق میں اتر سکیں۔اس کی اولاد جالب صاحب کے سرمایہ داری کے نظام کے جدوجہد کی نذر ہو گئی ۔ جالب صاحب نے نہ تو ان کیلئے کچھ چھوڑا کہ وہ اس سے گذر اوقات کر سکتے اور نہ انہیں اس قابل چھوڑا کہ وہ خود کچھ کر سکیں ۔ اس عظیم شاعر کی بیٹیاں اگر قوم کی طرف سے التجا بھری نظروں سے ہی دیکھتیں تو کافی تھا لیکن اگر ان کے سڑکوں پر احتجاج کے باوجود بھی ان کی کسی درخواست کو درخور اعتناء نہیں جانا جاتا تو اسے اکابرین کی بے التفاتی اور قوم کی بے حسی کے سوا کیا کہا جاسکتا ہے ۔اس بے حس قوم کیلئے کون اپنا خون دینا چاہے گا ۔ اس کے کیلئے کون اپنی روح تڑپائے گا ۔ اس کی ترجمانی کیلئے کون اگے آئے گا۔
    قوم کے اکابرین جو قومی خزانے کو دونوں ہاتھوں سے شیر مادر کی طرح ہٖضم کرنے کیلئے ہر حربہ استعمال کر رہے ہیں کیا وہ جالب صاحب کی قومی اور ملی خدمات کے عوض انکے پسماندگان کو چھت اور چھاؤں نہیں دے سکتے ۔دانت کا چیک اپ کرانے کیلئے بیرون ملک لاکھوں روپے سرکاری خزانے سے لگانے والے کیا ایک قومی اور ملت کے محسن کے گھرانے کے اخراجات کی سبیل کی راہ نہیں نکال سکتے ۔
    کیسے کریں اورکیوں کریں ؟جالب نے انہی اور ا نکے اسلاف کے خلاف ہی تو بغاوت کی تھی ۔
    انہیں ہی تو بے نقاب کیا تھا ۔ یہ وہی تو ہیں جو جالب کے لفظی نشروں کا اصل نشانہ تھے ۔ اپنے دشمن کے گھرانے کو سکھ میں دیکھنا یہ کیسے گوارا کر سکتے ہیں ۔ دکھ ہے اس قوم پر جو اپنے محسنوں کو فراموش کر دیتی ہے اور پھر منتظر بھی ہے کہ کوئی ان کی مسیحائی کا فریضہ ادا نہیں کر تا۔کیوں کرے گا کوئی ایسے محسن فراموش معاشرے کی ترجمانی ۔حلقہ ارباب ذوق کو تو جیسے جالب صاحب جیسے شعراء کرام سے نسبت ہی نہیں ۔کیوں وہ تو بدذوق ملک اور قوم کی بات کرتے ہیں اس میں ملک اور قوم سے عشق کی بات کی جاتی ہے ۔ان پر مرنے اور مٹنے کی ترغیب دی جاتی ہے ۔ این جی اوز کیلئے یہ نان ایشو بات ہے ۔ میڈیا کیلئے یہ قصہ پارنیہ ہے جس کی کوئی اہمیت نہیں ۔ پھر قوم کے محسنوں کا حق کیسے اور کون ادا کرے گا یہ سوال تشنہ ہی رہا جیسے یہ خود تھے اور جیسے انکے پسماندگان ہیں۔

    بذریعہ ای میل بلاگ پوسٹ


    گوگل پلس پر شئیر کریں

    Unknown

      بذریعہ جی میل تبصرہ
      بذریعہ فیس بک تبصرہ

    0 تبصروں کی تعداد:

    Post a Comment