شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ اور تصوف


    شیخ عبدالقادر جیلانی اور تصوف۔۔۔۔۔۔۔۔ تحریر: چوہدری طالب حسین 
    حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی اپنے آپ کو معاشرہ اور لوگوں میں دینی روح پھونکنے کے لیے قدرت الہیٰ کی طرف سے مبعوث اور نائبِ رسول خیال کرتے تھے چانچہ آپ کا قول ہے.اے میرے اللہ ! میں تجھ سے اس نیابت کے ضمن میں بخشش اور عافیت کا طلبگار ہوں- میں جس کام میں لگا ہوں،اس میں میری مدد فرما-میں تجھے انبیاء اور رسولوں کا واسطہ دیتا ہوں. تو نے مجھے اپنی سخت مزاج مخلوق کے درمیان صف اول
    میں کھڑا کر دیا ہے. پس میں تجھ سے بخشش اور عافیت کا سوال کرتا ہوں.مجھے شیطانوں ،انسانوں ،جنوں اور تمام مخلوق کے شر سے محفوظ فرما -(الفتح الربانی -ص ٢٣٩ ،بحوالہ ڈاکٹر ماجد عرسان الکیلا نی، معاصر پروفیسر - سعودی عربیہ-)حضرت شیخ عبدل قا در جیلانی (رح)،لوگوں کی زندگی میں اسلامی تعلیمات سے پیدا ہونی والی مثبت تبدیلی پر انتہائی خوش ہوتے تھے . آپ کی شدید خوہش تھی کہ آپ کو ایسی استطاعت نصیب ہو کہ تمام خلق کو نصرت اسلام پر ابھار سکیں - ایک مجلس میں فرماتے ہیں -- دین اسلام کی چار دیواری گری پڑی ہے ،اس کی بنیادیں بکھری پڑی ہیں--اے اہل زمین آؤ جو منہدم ہو گئی ہے ،اسے تعمیر کریں ،جو گر گئی ہے،اسے کھڑا کریں.یہی چیز ہے جسے مکمل کرنا ہے. اے سورج ! اے چاند! اے روز روشن !---سب آؤ (الفتح الربانی ،ص-٢٩٥-بحوالہ ڈاکٹر ماجد عرسان الکیلانی)


    مقبرہ پیرانِ پیر شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ
    ڈاکٹرماجد عرسان الکیلانی لکھتے ہیں کہ"( حضرت شیخ عبد القادر جیلانی -رح - کے ظہور سے پہلے ) فرقہ بندی کے امراض اور ا ن کے منفی اثرات فقہی مذاہب تک محدود نہ تھے بلکہ وہ ہم عصر صوفیہ تک پہنچ گنے اور انہیں انقسام و انحراف سے دو چار کیا اور سلوک تصوف میں رسمی ضابطوں کا پابند بنا دیا . دراصل تصوف کا آغاز تعلیمی مکاتب-فقہی مکاتب -کی طرح ہوا -جس کا مقصد تزکیہ نفس اور اخلاق کو جلا بخشنا تھا. مثلاّ مکتب محاسبیہ جو شیخ حا رث محا سبی سے منسوب تھا ،مکتب جنیدیہ جس کی نسبت حضرت جنید بغدادی سے تھی . مکتب نوریہ جس کی نسبت شیخ ابو الحسن سے تھی،مکتب نیشا پوریہ جو ابو جعفر نیشاپوری سے منسوب تھا اور مکتب شیخ سری سقطی وغیرہ(نشاة القادریہ ) یہ مکاتب اپنی آرا میں کبھی غلو سے کام نہیں لیتے تھے اور کسی بات میں بھی شریعت کی قیود سے باہر نہیں آتے تھے...جیسا کے ابن تییمہ ،جنہیں تصوف کے سب سے بڑے ناقد سجھا جاتا ہے- لیکن دراصل وہ خود بھی صوفی تھے، نے اپنے فتویٰ میں اس کی تفصیل بیان کی ہے.(کتاب التصواف) تاہم ارتقاء کا عمل جس نے تعلیمی مکا تب کو متاثر کیا،اس نے انہیں بھی مختلف ،طریقوں میں تبدیل کر دیا جس طرح کہ اس نے فقہی مکا تب کو مذاہب میں بدل دیا .یہاں یہ مناسب ہے کہ ہم اس ارتقاء کے بارے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا تبصرہ پیش کریں "صوفیہ سب سے پہلے بصرہ میں ظاہر ہونے اور سب سے پہلے جس نے صو فیہ کے لیے حلقہ بنایا، وہ عبدا لواحد بن زید کے اصحاب میں سے تھا. خود عبدا لوحد ، حضرت حسن بصری کے اصحاب میں سے تھے. بصرہ میں زہد ،عبادت اور خوف الہیٰ جیسے امور میں اس قدر محنت ہوتی تھی جو دوسرے تمام شہروں میں کہین نہیں ہوتی تھی. اسی طرح کوفہ میں فقہ میں بہت محنت کی گئی جو دوسرے تمام شہروں میں کہیں نہیں ہوئی . اسی لئے کہا جانے لگا: فقہ کوفی ہے اور عبادت بصری----اور صوفی کی نسبت لباس صوف کی طرف ہے." ( فقہی مکاتب کے لیے دیکھیے میرا مضمون Recourse Fiqh to Islamic Shariah -اردو -انگریزی- http://talibhaq.blogspot.com/ )" ا ن کے ہا ں تصوف کے بارے میں معروف حقائق ہیں جو اس کی حدود ،سیرت اور اخلاق کے متعلق بتاتے ہیں. مثلاّ بعض کا قول ہے " صوفی" تکدر سے صفا سے نکلا ہے-یہ فکر سے دل پر ہونے کا نام ہے اور اس کے نزدیک سونا اور پتھر برابر ہیں---وہ صوفی کو صدیق کے معنی کی طرف لیے جاتے ہیں اور انبیاء کے بعد صدیق،سب سے افضل مخلوق ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا -ترجمہ،(وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا ہے، انبیاء اور صالحین، وہ کیسے اچھے ساتھی ہیں سورہ النساء)- ہر طبقہ کے صدیق ہوتے ہیں جیسے علماء کے صدیق فقہاء کے صدیق، امراء کے صدیق (ابن تیمیہ- الفتاویٰ ،کتاب التصوف حصہ-١١ صفحہ ١٦٥٦)

    مدرسہ حضرت شیخ عبد القادر جیلانی (رح) بغداد -اور اس کی اہمیت.

    شیخ ابو سعید(رح) نے بغدادکے باب الا ز ج میں ایک چھوٹا سا مدرسہ قائم کیا تھا جو انکی وفات کے بعد حضرت شیخ عبدالقا در(رح) کی تحویل میں آ گیا آپ نے اس کی تعمیر نو کی. مدرسہ کی تعمیر ٥٢٨ ھ ١١٣٣ میں مکمل ہوئی .یہ مدرسہ حضرت شیخ سے منسوب ہوا ،جسے آپ نے تدریس ،افتا، اور واعظ کی متعدد سرگرمیوں کا مرکز بنا یا(طبقات الحنابلہ. جہاں تک مدرسہ کے لیے سرما یہ کا تعلق ہے، آپ کے پیروؤں اور مالدار لوگوں نے اساتذہ اور طلبہ کے اخراجات کے لیے اوقاف قائم کیے(ابن رجب-طبقات) کچھ لوگوں نے اس کے کتب خانہ کے لیے کتابیں وقف کیں (یاقوت الرومی )کئی ایسے خدام تھے جن کا کام مدرسہ کے انتظامی امور کی نگرانی اور اساتذہ و طلبہ کی خدمات کرنا تھا- ان میں احمد بن مبارک الرقعاتی(بحوالہ الذہبی) اور محمّد بن فتح الہروی(بحوالہ -الشطنوفی)شامل تھے مدرسہ کے علاوہ ایک رباط بھی تھی جس میں بغداد کے با ہر سے آنے والے طلبہ قیام کرتے تھے- ا ن کی نگرانی پر شیخ کے ایک شاگرد مقرر تھے جنہوں نے فقہ و تصوف دونوں میں تکمیل کی تھی. ان کا نام محمود بن عثمان بن مقرم النعال تھا(طبقات الحنابلہ) 

    مدرسہ سے متعلق معلومات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اس نے ملک شام میں صلیبی خطرہ کا سامنا کرنے کی غرض سے ایک نسل کی تیاری میں نمایا ں کردار ادا کیا ( ڈاکٹر ماجدعرسان الکیلانی).....جاری ہے.......(٢)حضرت شیخ عبدل قادر(رح) سے منسوب مدرسہ قادریہ ان مہاجرین کے بیٹوں کو خوش آمدید کہتا تھا جو صلیبی قبضہ کی وجہ سے بے گھر ہو گنے تھے -انہیں پوری طرح تیار کیا جاتا تھا اور پھر انھیں ان علاقوں میں واپس بھیج دیا جاتا تھا جو زنگی قیادت کے تحت صلیبیوں کا مقابلہ کر رہے تھے -جو بعد میں سلطان صلاح الدین کے عسکری مشیر بن گنے. اسی طرح الحافظ الرہاوی اور موسیٰ بن شیخ عبدالقادر (رح)جو شام منتقل ہو گنے تاکہ فکری سر گرمیوں میں حصہ لے سکیں. اسی طرح موفق الدین(رح --کتاب المغنی کے مصنف اور سلطان صلاح الدین کے مشیر)اور ان کے قریبی الحافظ عبد الغنی تھے. یہ دونوں اس وقت حضرت شیخ کے مدرسہ میں داخلہ کے لیے آئے، جب ان کے خاندانوں نے نابلس کے علاقہ میں واقع جماعیل سے دمشق کی طرف نقل مکانی کی. ابن قدامہ المقدسی نے شیخ کے طریقہ تعلیم اور طلبہ میں اس کے اثر کو یوں بیان کیا ہے:ہم سن ٥٦١ ھ میں بغداد میں داخل ہونے .اچانک ہم نے شیخ عبدالقادرکو دیکھا جو علم،عمل،حال اور اشتغنا میں کمال کی انتہا کو پہنچے ہونے تھے. علوم میں مہارت ،کارکنوں سے تحمل اور وسعت قلب جو آپ کی ذات میں جمع تھی ،وہ طالب علم کو کہیں اور نہیں جانے دیتی تھی. آپ کا دیدار آنکھ کو بھلا لگتا تھا. اللہ تعالیٰ نے آپ میں ایسے اوصاف جمیلہ اور احوال نادرہ جمع کر دینے تھے کہ میں نے آپ جیسا بعد میں نہیں دیکھا (طبقات الحنابلہ -قلائد الجواہر--)ایک طرف،حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی(رح) کےبہت سے شگردوں اور فیض یافتگان نے حضرت شیخ کے زیر سایہ متعدد مدارس قائم کیے ،جن کے فارغ التحصیل طلباء نے تحریک تجدد اور القدس کی بازیابی میں اہم کردار ادا کیا. دوسری طرف،اگرچہ شیخ کا تعلق حنبلی مذہب سے تھا مگر آپ نے شافعی مذھب کو وسیع الظرف بنایا،شافعیوں سے تعاون کیا اور حنبلی مذہب کے ساتھ ساتھ شافعی مذہب کے مطابق بھی فتوے دینے. یہاں تک کہ امام نووی شافعی نے آپ کے بارے میں کہا کے" شیخ شا فعیوں اور حنبلیوں کےسردار تھے.حضرت شیخ نے مختلف مذاہب اور رجحانات رکھنے والے علماء و مورخین میں اپنے لیے بلند مقام پیدا کر لیا. سبط ابن جوزی حنفی کے نزدیک آپ" تقویٰ اور اعلی ترین بزرگی کا نمونہ تھے. ذھبی شافعی کے نزدیک آپ" عارفوں کی مثال اور صاحب مقامات و کرامت" تھے ابن رجب حنبلی کے نزدیک "شیخ زمانہ،عارفوں کی مثال اور مشائخ تھے .ابن تغری بردی حنفی کے نزدیک "شیخ الاسلام،تاج العارفین.......ایک ایسے فرد جس کا ذکر مشرق و مغرب میں گونجنے لگا. ابن فضل اللہ العمری کے نزدیک "اولیاء کے سربراہ.دین کو زندہ کرنے والے " ابن تییمہ کے نزدیک" امر و نہی کے تقاضوں میں اور اس کی متا بعت کی وصیت کرنے میں تمام لوگوں میں عظیم ترین "تھے. یافعی کے نزدیک "علم و حکمت میں قطب وقت" تھے . ابن شاکر کتبی کہتے ہیں کہ "آپ بلا خوف تردید امام زمانہ ،قطب عصر اور وقت کے شیخ تھے.یہ سب کچھہ ابن رجب نے حضرت شیخ کی صفت میں جمع کر دیا " آپ کو لوگوں میں قبولیت تامہ ملی،وہ آپ کی دیانت اور نیکی کے معتقد ہو گنے. انہوں نے آپ کی ذات،کلام اور وا عظ سے نفع پا یا .آپ کے احوال، اقوال،کرامت اور مکاشفات کی شہرت ہر طرف پھیلی اور آپ سے بادشاہ اور ان کے متعلقین خائف ہو گنے.(٢)حضرت شیخ عبدل قادر(رح) سے منسوب مدرسہ قادریہ ان مہاجرین کے بیٹوں کو خوش آمدید کہتا تھا جو صلیبی قبضہ کی وجہ سے بے گھر ہو گنے تھے -انہیں پوری طرح تیار کیا جاتا تھا اور پھر انھیں ان علاقوں میں واپس بھیج دیا جاتا تھا جو زنگی قیادت کے تحت صلیبیوں کا مقابلہ کر رہے تھے -جو بعد میں سلطان صلاح الدین کے عسکری مشیر بن گنے. اسی طرح الحافظ الرہاوی اور موسیٰ بن شیخ عبدالقادر (رح)جو شام منتقل ہو گنے تاکہ فکری سر گرمیوں میں حصہ لے سکیں. اسی طرح موفق الدین(رح --کتاب المغنی کے مصنف اور سلطان صلاح الدین کے مشیر)اور ان کے قریبی الحافظ عبد الغنی تھے. یہ دونوں اس وقت حضرت شیخ کے مدرسہ میں داخلہ کے لیے آئے، جب ان کے خاندانوں نے نابلس کے علاقہ میں واقع جماعیل سے دمشق کی طرف نقل مکانی کی. ابن قدامہ المقدسی نے شیخ کے طریقہ تعلیم اور طلبہ میں اس کے اثر کو یوں بیان کیا ہے:ہم سن ٥٦١ ھ میں بغداد میں داخل ہونے .اچانک ہم نے شیخ عبدالقادرکو دیکھا جو علم،عمل،حال اور اشتغنا میں کمال کی انتہا کو پہنچے ہونے تھے. علوم میں مہارت ،کارکنوں سے تحمل اور وسعت قلب جو آپ کی ذات میں جمع تھی ،وہ طالب علم کو کہیں اور نہیں جانے دیتی تھی. آپ کا دیدار آنکھ کو بھلا لگتا تھا. اللہ تعالیٰ نے آپ میں ایسے اوصاف جمیلہ اور احوال نادرہ جمع کر دینے تھے کہ میں نے آپ جیسا بعد میں نہیں دیکھا (طبقات الحنابلہ -قلائد الجواہر--)

    بغدادی معاشرہ کے عمومی ماحول میں شیخ (رح) کے مورخین لکھتے ہیں کہ آپ کی زندگی دو باتوں کی بنا پر ممتاز تھی .پہلی یہ کہ آپ کی زندگی فقر و افلاس کی زندگی تھی. آپ کے والد نے وفات کے وقت آپ کے لیے اور آپ کے بھا ئی کے لیے مبلغ ٨٠ دینار ترکہ چھوڑے تھے . آپ کو اس میں سے آدھے ملے.(قلائد الجواہر ص-٣) اکثر اوقات آپ اپنی یومیہ خوراک سبزی فروشوں سے ادھار لیتے جو اس مہنگائی کے دور میں روٹی کے ایک ٹکڑے اور پودینہ سے زیادہ نہ ہوتی تھی. یہ ادھار آپ،والدہ کی طرف سے ملنے والی رقم کے انتظار میں لیتے تھے.(ابن رجب-طبقات الحنابلہ-حصہ-١ ص ٢٩٨ ).

    حضرات امام غزالی اور شیخ عبدل قادر جیلانی-رح. 

    جب شیخ عبدالقادر جوان تھے تو امام غزالی کی شہرت پھیل چکی تھی اور تاریخی اندراجات سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح بڑے بڑے شیوخ حنابلہ ان کے درس میں حاضری کے خواہش مند رہتے تھے .انہی شیوخ میں شیخ عبدالقادر بھی شامل تھے. جب ٥٠٥ ھ میں امام غزالی نے وفات پائی تو حضرت شیخ پینتیس سال کی عمر کو پہنچ چکے تھے. یوں آپ کی تحریروں اور علمی آ ثا ر میں امام غزالی کا اثر واضح طور پر دکھائی دیتا ہے. آپ اپنی املاء میں امام غزالی کے پورے فقرے نقل کرتے ہیں.حضرت شیخ کی کتاب" الغنیہ الطالبی طریق الحق"، غزالی کی کتاب" احیاء علوم الدین" کے انداز پر لکی گئی ہے. اسی طرح سلوک زہد میں غزا لی کا اثر دکھائی دیتا ہے جو شیخ عبدالقادر نے اپنے لیے اختیار کیا اور جسے تاریخی ماخذ آپ کی دس سالہ"سیا حت" برا ے مجاہدہ کا نام دیتے ہیں، اس کے بعد آپ درس و تدریس اور وا عظ پر متمکن ہونے. یہ بھی "پسپائی ور پلٹنا" کے اصول کے مطابق ہے،جس پر امام غزالی نے شام و حجاز کی سیاحت میں عمل کیا .تا ھم امام غزالی کا اثر محض وقتی تھا. بعد میں شیخ عبدالقادر نے فکر اور اس کے عملی اطلاق میں اپنے خاص طریقہ کو ممتاز بنایا ...،،،


    ہم دیکھتے ہیں کے حضرت عبدالقادر تصوف کے تجربہ میں تین مراحل سے گزرے.(!) جب امام غزالی کے طریق کار میں فقہ اور تصوف کو جمع کرنے کی بات آپ کے ذہن نشین ہوئی .(٢) جب آپ نے الدباس اور المحزمی (رح ) سے سلوک صوفیہ کی مشق کی.(٣) جب آپ کا اپنا ذاتی رنگ عیاں ہوا اور فقہ و تصوف کو جمع کرنے پر آپ نے پوری قدرت حاصل کر لی.اس میں شک نہیں کہ حنبلی ثقافت اس اصول پر زور دیتی ہے کہ طالب، قرآن وسنت سے برا ے راست ربط قائم کرے.آپ کے طریق کا ر میں سلف صالح کے اثرات دیگر مکتب فکر سے آے .پس آپ فلسفہ ،علم الکلام،الہام پر مبنی صو فیہ کی تفسیرات کے اثرات سے محفوظ رہے حالانکہ غزالی کی بعض تحریروں اور افکار میں انکا رنگ ملتا ہے. بہر کیف جھگڑالو فرقوں (جو دیں کو اپنے مقصد کے استعمال کرتے تھے) اور ایسی تربیت جس کا مقصد دیں خالص ہو، کے درمیان فرق کے معاملہ میں امام غزالی اور شیخ عبدالقادر ایک تھے. یہ تربیت ان فرقہ وارانہ اختلافات پر غالب آ گئی جو امام غزالی اور حضرت شیخ کے عہد سے پہلےا شاعرہ شافعیہ اور حنابلہ کے درمیان پے جاتے تھے.(هكذا ظهر جيل صلاح الدين و هكزاعادت القدس -ماجد عرسان الكيلاني )اس طرح حضرت شیخ نے "تحریک تجدد " کو منظم بنانے کے قرون اول کے طریقہ کار کو اپنایا جب شریعت کا مفہوم محدود نا تھا . اسے شریعت کے بنیادی ماخزوں کی طرف عمومی رجوح بھی کہہ سکتے ہیں

    بذریعہ ای میل بلاگ پوسٹ


    گوگل پلس پر شئیر کریں

    Unknown

      تبصرہ بذریعہ گوگل اکاؤنٹ
      تبصرہ بذریعہ فیس بک

    3 تبصروں کی تعداد:

    1. تصوف کے موضوع پر ایک نہایت عمدہ مضمون۔۔۔۔

      ReplyDelete
    2. میرا خیال ہے کہ شیخ عبدالقادر جیلانی کی کتاب کا نام غنیۃ طالبی کی بجائے غنیۃالطالبین ہے۔

      ReplyDelete
    3. اگر میں غلطی پر نہیں ہوں تو شیخ عبدالقادر جیلانی رح کی کتاب کا نام غنیۃالطالبی کی بجائے غنیۃ الطالبین ہے۔

      ReplyDelete