کس کی جنگ

    کس کی جنگ۔۔۔۔۔۔۔۔ تحریر: عباس ملک 
    ہمارے اکابرین اپنے سیاسی بیانات اور تقاریر میں تسلسل کے ساتھ اکثر یہ کہتے سنے جاتے ہیں کہ وہ جمہوریت کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔ وہ عوام کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔ وہ پاکستان کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔وہ اسلام کی جنگ لڑ رہے ہیں۔یہ ایسی بات ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ کوئی پوچھے تو اگر اتنے سارے اکابرین اگر یہ چومکھی لڑ رہے ہیں تو پھر اس کے نتائج سے عوام ،جمہویت ،پاکستان اور اسلام کو فائدہ کیوں نہیں ہو پا رہا ۔سادہ سی بات ہے کہ باتوں تقاریر، بیانات سے کسی قوم ملک مذہب یا معاشرے کی خدمت نہیں ہو سکتی ۔باقی الذکر کے علا وہ یا ان کے تناسب میں ان اکابرین کے اثاثہ جات کو دیکھا جائے تو ان میں حیران کن حد تک اضافہ دیکھا جا سکتا ہے لیکن مؤخر الذکر کا وجود نقاہت سے لرزاں ہے ۔وہ تمام خانوادے جو سیاست کی وادی میں برجمان ہیں ان کے اثاثہ جات قیام پاکستان سے لے کر آج تک کس تناسب میں بڑھے ہیں ۔کس طرح ان کو اقتدار کی دیوی نے نوازا ہے۔ اس کے برعکس تذکرہ شدگان کو بھی دیکھیں تو فرق صاف اور واضح نظر آتا ہے ۔جس معاشرے میں داغ تو اچھے ہوتے ہیں کو لوگوکا درجہ دے دیا جائے اس کے اخلاقی معیار کا عالم کیا ہوگا۔ اس کے اکابرین کے داغ کیسے ہونگے ۔اس معاشرے میں اس وقت ہر کوئی اپنی جنگ لڑنے میں مصروف ہے ۔ معاشرے میں نفسا نفسی کا عالم ہے ۔اکابرین کی خواہش ہے کہ ملک کا قانون اور آئین ایسا ہو جس میں ان کیلئے ہر طرف استثناء ہو۔اکابرین کو عدالت میں پیشی سے بھی اسثناء چاہیے ۔انہیں جیل میں بھی اے کلاس چاہیے ۔مجرم بھی کلاسفائیڈ ہیں اور قانون بھی کاسفائیڈ ہے ۔یہاں غریب کسی جرم میں اگر جیل جائے تو اسے کوئی بھی بیماری ہو اسے ڈاکٹر کی شکل دیکھنی نصیب نہیں ہوتی جبکہ اکابرین کو جیل بعد میں ہوتی ہے اور ڈاکٹر انہیں ہسپتال میں پہلے ایڈمٹ کرتے ہیں۔ یہاں عام آدمی کو وکیل بھی دولت سے ملتا ہے اور اسی طرح انصاف بھی دولت کا ہی احترام کرتا ہے ۔انسان اور انسانیت کی کوئی قدر نہیں۔ صرف اشراف اور مملوک کی تقسیم ہے ۔سب کی خواہش ہے کہ اسے ہی سب کچھ ملے اور باقی سب اس کے محتاج ہوں ۔ سرکاری محکموں کے آفیسر معاشرے کے خادم بننے کی بجائے اقربا پروری ، خوشامد اور کنبہ پروری کے آمین بن چکے ہیں۔یہ اختیار و اقتدار کی جنگ کا دور ہے ۔سب کو اختیار اور اقتدار اپنے ذات کے تحفظ کیلئے چاہیے۔اس میں معاشرے ، ملک ،قوم کا کوئی بھی احساس شامل نہیں ۔ جس کو بھی اقتدار ملتا وہ اسے اپنے مقاصد کیلئے استعما ل میں لا تا ہے ۔جس کو اقتدار نہیں ملتا وہ دوسرے کی راہ میں روڑے اٹکانے اور اسے نیچا دکھانے کیلئے اس کی ٹانگ کھینچنے اور اسے ناکام بنانے کیلئے ہر حربہ استعمال کرتا ہے ۔زندگی اکابرین اپنے لیے آسان بنانے کی ہر کوشش کی ہے اور اپنے اور اپنوں کے تحفظ کیلئے ہر حربہ استعمال ہو رہا ہے ۔ہاتھیوں کی جنگ میں گھاس کا ستیاناس کے مصدق اکابرین کی اس چھینا چھپٹی میں عوام کا کچومر بن چکا ہے ۔ آج سے کچھ سال پہلے تک ایک عام آدمی کو جو کچھ دستیاب تھا اب وہ صرف اس کا تصور ہی کر سکتا ہے ۔ تین وقت کی روٹی اب دووقت کی روٹی کی میں بدل چکی ہے ۔ عام آدمی کسی معیاری چیز کی تمنا تو کر سکتا ہے لیکن اس کا حصول اس کیلئے کٹھن ہے۔ اکابرین کی دیکھا دیکھی عام آدمی میں یہ کریہہ فطرت عادات عود آئی ہیں ۔ وہ بھی اب اخلاقیات سے بے نیاز ہو کر ہر وہ کام کرنے کو تیار ہے جو اسے با حیثیت مسلمان اور پاکستانی اسے ہرگز بھی زیب نہیں دیتا۔اب پیسے کی خاطر کوئی یہ نہیں سوچتا کہ وہ کون ہے اور کیا ہے اور کیا کر رہا ہے ۔اسے ایسا کرتے ہوئے ذرا پشیمانی نہیں ہوتی ۔ بس یہی سوچتا ہے کہ مجھے یہ حاصل ہو جائے اور میں کامیاب ہو جاؤں ۔ اپنے مقاصد کے حصول کیلئے ہم ہر اخلاقی اور اسلامی رکاوٹ کو عبور کرنے میں ذرا بھی تامل نہیں کرتے ۔کہنے سننے میں تو ہم سب مسلمان اور پاکستانی ہیں لیکن دیکھنے میں اس کا عکس بھی ہم میں کم ہی نظر آتا ہے ۔اب ہم کہتے ہیں کہ رشوت لینا اور دینا کوئی گناہ نہیں بلکہ وقت کی ضرورت بن چکا ہے ۔ اب ہمیں سود لینا اور دینا بھی حرام نظر نہیں آتا ۔ شرآب کو وقت کا تقاضا قرار دیا جا چکا ہے۔اس جنگ میں دین ، ملت اور قوم اور ملک کا کوئی کردار نہیں ۔نفسانی خواہشات نے ہر اخلاقی سنگ راہ مٹا کر رکھ دی ہے ۔اک ہی نشان باقی ہے اور وہ اپنی ذات ہے ۔جس معاشرے میں ہر داغدار کو مرتبے کیلئے اہل قرار دینے کیلئے ووٹ دیا جائے وہاں پر شفافیت کا کیا کام ہے ۔پورا خانوادہ کرپشن کے الزامات سے لتھڑا ہے لیکن پھر بھی عوام اس کو ہی اپنا نمائیندہ قرار دیکر اسمبلی میں بھیجنے کیلئے ووٹ دیتے ہیں۔ اس سے یہ سوچ واضح ہوتی ہے کہ ہمارے معاشرے میں شریف آدمی کو اپنا نمائیندہ ہی نہیں جانا جاتا۔ کرپٹ افراد کرپٹ لوگوں کو ہی اپنا نمائیندہ قرار دیتے ہیں ۔ معاشرتی جنگ کس نے لڑنی ہے یا لیڈر نے یا پھر خود معاشرے کے مکینوں نے ہی یہ کردار ادا کرنا ہے ۔معاشرے کے لیڈر کرپشن کو پرموٹ کرتے ہیں اور معاشرہ انہیں اپنا محبوب قرار دے کر ووٹ سے منتخب کر کے عزت سے نوازتا ہے ۔ایسے میں یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی شریف آدمی جس کا دامن اجلا ہو وہ معاشرے میں کسی باعزت رتبہ کیلئے اہل قرار پائے ۔ ہمیں شریف لیڈر کی نہیں بلکہ ایسے نمائیندے کی ضرورت ہے جو تھانہ کچہری میں ہمارے جرائم کو تحفظ دے ۔ ہماری کرپشن اور دونمبری کے خلاف ہونے والے کسی بھی ایکشن میں مزاحمت کرے ۔ قائدین دشمن کے خلاف نبرد آزما ہونے کی بجائے مصلحت کو ترجیح دیں تو کیسے مملکت کا پرچم اور اس کی توقیر ہو گی ۔ آئین اور قانون کو جھکانے کی کوشش ہوتی ہے خود دشمن کے اگے جھک کر جارحیت سے باز رہنے کی التجا کی جاتی ہے۔ یہ جنگ ملک و قوم کی نہیں یہ بازی صرف اپنی بازی ہے ۔ یہ اپنے نفس کے تحفظ کی جنگ ہے ۔یہ اپنی ذات کی جنگ ہے ۔ اسے عوام سے منسوب کر کے صرف عوام کو دھوکا دیا جاتا ہے ۔یہ ریا کاری ہے ، یہ دھوکا ہے ، یہ فریب کاری اور منافقت ہے ۔ جب تک یہ ناسور ہمارے جسم میں موجود ہیں شفاء کیسے ہو سکتی ہے ۔ ہمیں ان سے نجات حاصل کرنے کیلئے خود کا اپریشن کرنا ہوگا ۔ اپنے اندر ایمان کی حرارت پیدا کرنی ہوگی۔ اپنے آپ کو بدلنا ہوگا۔ تب یہ بازی ہماری بازی ہوگی ۔ ملت عوام ملک و قوم اور غریب عوام کی بازی ہوگی ۔

    بذریعہ ای میل بلاگ پوسٹ


    گوگل پلس پر شئیر کریں

    Unknown

      بذریعہ جی میل تبصرہ
      بذریعہ فیس بک تبصرہ

    0 تبصروں کی تعداد:

    Post a Comment